جواب:جدید مزاحیہ طنزیہ اُردو نثرنگاری کی سرسید کے دور کی صورت حال:
یہ کہا جا سکتا ہے کہ 1857ء کے بعد اُردو ادب میں انگریزی کی تقلید میں مضمون نگاری کا آغاز ہو چکا تھا اور اس ضمن میں سرسید احمد خان کی کوشش کو بڑا دخل ہے۔ سرسید اور ان کے رفقا نے مختلف النوع مضامین و مقالات لکھ کر اُردو دان ادیبوں کو ایک نئے ذریعہ اظہار سے روشناس کرایا۔
سرسید کا طنز و مزاح میں حصہ:
طنز و مزاح میں علی گڑھ کا بھی قابل قدر حصہ ہے۔ اس فہرست میں سب سے پہلے سرسید اور ان کے معاصرین کا ذکر ہونا چاہیے۔ سرسید کے یہاں طنز کے نہایت لطیف نشتر کے علاوہ مزاح کے نمونے بھی موجود ہیں۔ سرسید کی یہ ظرافت اس وقت مزید نکھر کر سامنے آتی ہے جب وہ اپنے مخالفین کا طنزیہ و مزاحیہ انداز میں جواب دیتے ہیں۔ بعض اوقات مذہبی موضوعات پر بھی انہوں نے مزاحیہ انداز میں اظہار خیال کیا ہے۔
انہوں نے تاریخ و جغرافیہ جیسے خشک موضوعات کو بھی اپنی تحریر کا حصہ بنا یا اور اس انداز سے اسے برتا کہ اسے بھی ادب لطیف بنا دیا،،ا ن کی سلاست و سادگی اور برجستگی کا اندازہ لگانے کے لیے ان کے مضمونُ ’امید کی خوشی“ کو پڑھا جاسکتا ہے، بیان کی ایسی سادگی، شادابی، شگفتگی نظر آتی ہے جو دلوں کو موہ لیتی ہے، سرسید پہلے ایسے شخص ہیں جنہوں نے اس قدر موضوعات کو اپنی تحریر کا حصہ بنایا۔
سرسید سے پہلے کا دور:
سرسید سے پہلے اردو ادب میں نثر کا خصوصاً علمی نثر کا وجود ہی نہ تھا۔ ادب کا دائرہ علاوہ شاعری کے مذہب، تصوف اور تاریخ نگاری تک محدود تھا۔ غالب کی نثر بھی کوئی شعوری کوشش نثر کی اصلاح یا ارتقا کی نہ تھی بلکہ یہ وہ خطوط تھے جو وقتاً فوقتاً انہوں نے اپنے دوستوں کو لکھے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ بے تکلف خطوط کسی بھی انسان کے دلی حقیقی جذبات کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ ان میں جان بوجھ کر مینا کاری اور مرصع نگاری نہیں کی جاتی۔ یہ اور بات ہے کہ غالب چونکہ عبقری تھے اس لیے ان کا ہر عمل انفرادیت لیے ہوئے تھا۔ رہ گئی فورٹ ولیم کالج کی نثری تصنیفات تو ان کا دائرہ محض داستانوں تک محدود تھا۔ خواہ وہ باغ و بہار ہو یا آرائش محفل، نشاط خاطر کا ذریعہ تھیں ان کو پڑھ کر انسان خود کو بھول تو جاتا تھا،دیو، پریوں اور بادشاہوں و شاہزادیوں کے مافوق الفطرت عناصر میں کھوکر کچھ دیر کے لیے آلام روزگار سے پیچھا تو چھڑا لیتا تھا مگر کچھ پاتا نہیں تھا۔
صحیح معنوں میں سرسید ہی اردو میں وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے اس بات کا اندازہ لگایا کہ نثر کا مقام نظم سے جدا ہے۔ انہوں نے ہی سب سے پہلے روایت کی تقلید سے ہٹ کر آزادی رائے اور آزادی فکر کی بنیاد ڈالی۔ سرسید نے اردو نثر پر کئی طریقوں سے اثر ڈالا۔ انہوں نے مضمون و معنی کو اولیت دی اور طرز ادا کو ثانوی درجہ دیا۔ نہ صرف یہ بلکہ زبان و بیان کی سادگی پر بھی بڑا زور دیا۔انہوں نے زبان کو عام فہم بنایا اور ہر قسم کے مضامین ادا کرنے کی صلاحیت پیدا کی۔ ہمارے یہاں سرسید سے پہلے مضمون نگاری کا خاص وجود نہ تھا۔ یہ سرسید کا دم تھا کہ آج ہمارے ادب میں ایسے مضامین کی کمی نہیں جنہیں ہم مغربی ادب اور ادب عالیہ میں فخر یہ پیش کر سکتے ہیں۔
جدید مضمون نویسی ہمارے ہاں مغرب سے آئی ہے جس میں عموماً چار چیزوں کا پایا جانا ضروری ہے۔
۱۔ فطری انداز بیاں یعنی ایسا گھر یلو انداز جسے پڑھ کر یہ احساس ہو کہ لکھنے والا بغیر کسی تنظیم یا پلاننگ کے بات بالکل فطری انداز میں کہہ رہا ہے۔
۲۔ اختصار یعنی مضمون غیر ضروری طوالت سے پاک ہو۔
۳۔ عدم تکمیل یا جزویت یعنی زندگی کے کسی ایک پہلو یا کسی پہلو کی جھلک ہو۔
۴۔ شگفتگی یعنی طرز تحریر میں ثقالت یامنشیانہ انداز نہ پایا جائے بلکہ پڑھنے والے کو احساس ہو کہ”میں نے یہ جانا گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔“
ان چاروں خصوصیات کے حامل وہ مضامین ہیں جو سرسید اور ان کے ساتھیوں نے وقتاً فوقتاً لکھے تھے مثلاً سرسید کے”امید کی خوشی ”، گزرا ہوا زمانہ“، ”نادان خداپرست“، ”بحث و تکرار“ وغیرہ جن میں اختصار، شگفتگی، فطری انداز اور جزویت نمایاں ہیں۔ یوں کہیے کہ اردو میں مضمون کے بانی سرسید ہیں۔ سرسید کے علاوہ نواب محسن الملک، مولوی چراغ علی اور ذکا اللہ وغیرہ نے بھی سرسید کے اثر سے مضمون نگاری میں نام پیدا کیا اور مضمون کو ایک علیحدہ اور مستقل صنف بنانے میں مدد دی۔ دراصل”تہذیب الاخلاق“ کی حیثیت ایک انتہائی اہم سنگ میل کی سی ہے۔
انگلستان سے واپسی:
سرسید جب 1869ء میں انگلستان گئے تو وہاں نہ صرف سرولیم میور کی کتاب کا جواب لکھا بلکہ جدید تعلیمی نظام سے متاثر ہوئے اور اسی طرز پر ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے تعلیم رائج کرنے کا تہیہ کیا۔وہ وہاں کی صحافت سے بھی بڑے متاثر ہوئے خصوصاً وہاں کے دو اخباروں ٹیٹلر اور اسپیکٹیٹر سے بہت کچھ سیکھا جنہیں اسٹیل ایڈسن نکالا کرتے تھے۔ ان اخبارات کے دو بڑے مقاصد تھے۔
۱۔ آرٹ، لٹریچر، اخلاقیات اور کردار کا عقلی معیار قائم کرنا۔
۲۔ خوش طبعی کو ذکاوت سے ملانا۔
اسپیکٹیٹر اور ٹیٹلر کا سب سے بڑا مقصد ادب کو سوسائٹی کی اصلاح کا ذریعہ بناناتھا اسٹیل ایڈسن نے ادب کو سوسائٹی کی اصلاح کا ذریعہ بنایا کہ پڑھنے والے مخلوط ہوں، ان میں غور و فکر کا مادہ پیدا ہوا اور وہ اپنی تہذیبی اصلاح کی طرف بھی مائل ہوں۔ ساتھ ہی ادب میں طنز و ظرافت کا ایسا عنصر بھی شامل ہو جو پڑھنے والے کو محظوظ بھی کرے اور سبق آموز بھی ہو۔
سرسید کے دور کا طنز و مزاح:
شبلی:
شبلی کی سیاسی نظموں میں طنز زیادہ ہے۔ شبلی کی ان نظموں کا موضوع ہنگامی واقعات تھے۔ یہ صحیح ہے کہ شبلی کے یہاں طنز و تعریض کے عناصر زیادہ ہیں اور مزاح و ظرافت کم ہے مگر ایسا بالکل نہیں کہ ان کے مزاج میں شوخی اور شگفتگی نہیں۔
شبلی کے مکاتیب میں شگفتگیِ بیان کے ساتھ ہی چھوٹے چھوٹے طنزیہ جملے ملتے ہیں جو ان کے خطوط کو دلچسپ بناتے ہیں۔ اس انداز بیان کی وجہ سے ان کے خطوط میں بے تکلفی بھی پیدا ہو جاتی ہے، اور بے ساختگی بھی جو ایک قسم کے جوشِ جمال کے ساتھ ابھرتی اور تحریر کو دلکش بناتی ہے اور جب یہ بے ساختگی اپنی تمام تر فن کاری کے ساتھ طنز یہ پیرائے میں ظاہر ہوتی ہے تو تحریر اور بھی حسین ہو جاتی ہے۔
حالی:
حالی نے اپنے مقالات میں بھی قوم کی اصلاح کے لیے طنزیہ پیرایہ استعمال کیا ہے۔ ان کے یہاں طنز کبھی کبھی شدت بھی اختیار کر لیتا ہے۔ مزاح کا مقصد ان کے نزدیک کسی کی خامی پر ہنسنا، کسی پر کیچڑ اچھالنا نہیں ہے۔ وہ ایسے مزاح کو نامناسب سمجھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے ایک مضمون ”مزاح” میں اس پر تفصیل سے لکھا ہے اور اودھ پنچ کے رویے کو ناپسند کیا ہے۔ حالی صحت مند طنز و مزاح کے طرف دار تھے اور اس سے قوم یا فرد کی اصلاح چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ کسی کے احساسات کو ٹھیس بھی نہ لگے اور ہنسی مذاق میں کام کی بات کہہ دی جائے۔ اس کے لیے وہ لطیفوں یا مثالوں کا سہارا لیتے ہیں۔
طنز ان کی نثر کے مقابلے میں شاعری میں زیادہ ہے۔ قوم سے زیادہ تر خطاب بھی انہوں نے اپنی نظموں اور رباعیوں میں کیا ہے اور قوم کی اخلاقی گراوٹ اور بدحالی کو طنزیہ پیرائے میں بیان کیا ہے مگر یہاں بھی اکثر جگہ حکایتی ایا تمثیلی انداز غالب رہا ہے۔
نذیر احمد:
نذیر احمد نے طنز کے ساتھ مزاح کو بھی استعمال کیا ہے۔ معاشرے کی ظاہر داری اور نمائشی زندگی کو نشانہ بنانے کے لیے نذیر احمد نے مرزا طاہردار بیگ جیسے کردارکو پیش کیا ہے۔
نذیر احمد اگرچہ طنز و مزاح نگار ہیں لیکن ان کی تحریروں میں طنز و مزاح کے عمدہ نمونے موجود ہیں۔ نذیر احمد نے اپنے ناولوں کے ذریعے متوسط طبقے کی گھریلو زندگی کو ہمارے سامنے رکھا اور اس دور کی ناہمواریوں کی اصلاح کے لیے طنز و مزاح کا حسب ضرورت استعمال کیا۔
شگفتہ بیانی کا یہ سلسلہ مابعد سرسید بھی جاری رہا اور مولوی عبدالحق، وحید الدین سلیم، سجاد انصاری، مولانا ظفر علی خاں اور سلطان حیدر جوش وغیرہ نے کم و بیش طنزیہ و مزاحیہ ادب کے اچھے نمونے پیش کیے۔
”چند ہم عصر“ مولوی عبدالحق کے لکھے گئے خاکوں کا مجموعہ ہے جس میں خاکہ نگاری کے اعلی نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ عبدالحق نے اس مجموعہ میں ان شخصیتوں کا خاکہ پیش کیا جن سے انھیں دلی لگاؤ تھا۔ ان خاکوں میں ظرافت بھی جگہ جگہ موجود ہے۔ وہ بڑی سادگی سے طنز کے وار بھی کر جاتے ہیں۔
……٭……