سوال: اُردو میں فکاہیہ کالم نگاری کی روایت پر تبصرہ کریں؟

جواب:فکاہیہ کالم کی تعریف و توضیح:

فکاہیہ کالم صحافی اصلاح ہے۔ فکاہت عربی زبان کا لفظ ہے،جب کہ کالم انگریزی فکاہت سے مراد خوش طبی یعنی ظرافت ہے۔قلم سے مراد اخبارات اور رسائل کی وہ مختصر تحریریں ہیں جو مخصوص عنوان اور مخصوص نام کے ساتھ باقاعدگی سے شائع ہوں۔اس کا موضوع معاشرے کا کوئی بھی پہلو ہو سکتا ہے۔

طنز و مزاح کی روایت:


اردو زبان و ادب آج جس مہتمم بالشان مرتبہ پر فائز ہے۔اس میں اردو صحافت کا کردار نہایت اہم ہے۔اردو ادب کے بہت سے گوشے صحافت کے ذریعے ہی منور ہوئے ہیں۔طنز و مزاح کی روایت کا باقاعدہ آغاز نہ صرف صحافت کے ذریعے ہوا بلکہ ارتقا کے اہم مراحل بھی صحافت کے ذریعے ہی طے ہوئے ہیں۔

طنزیہ اخبار:


منشی سجاد حسین کی زیرصدارت یکم جنوری 1983ء کو لکھنؤ سے جاری ہونے والا ہفت روزہ اور پانچ خالص طنزیہ اخبار تھا۔یہ ہفت روزہ خبروں کی تجارت نہیں کرتا تھا بلکہ سیاسی معاشرتی اخلاقی مذہبی اور ادبی بے اعتدالیوں پر کے پردے میں گرفت کرتا تھا۔اور پانچ کا یہ انداز ظرافت اتنا اتنا مقبول ہوا ہوا کہ متحدہ ہندوستان سے ظریفانہ پرچے برسات کے مینڈکوں کی طرح نکلنے لگے۔اس ظریفانہ اخبار نے فقہات کو انسانی زندگی اور زندہ انسانی معاشرے کے اظہار کا ذریعہ بنایا یا، طنز و مزاح کی حیات آفرین روایت کی بنیاد پڑی۔

اودھ پنج کا دور اور الہلال:


اودھ پنج کے دور میں اگرچہ گنتی کے چند سنجیدہ برات بھی شائع ہورہے تھے لیکن ان میں فکاہی کالم کو کوئی جگہ نہ دی جاتی تھی۔اودھ پنج اور دیگر ظریفانہ پرچہ میں تو فقہی کالم رواج پا چکے تھے لیکن سنجیدہ اخبارات میں فقہی کالم نگاری کا آغاز بیسویں صدی کی پہلی دہائی کے بعد مولانا ابوالکلام آزاد کے ہفت روزہ الہلال سے ہوا۔الہلال سے قبل یعنی بیسویں صدی کے آغاز میں تین روز نامے پیسہ اخبار اخبار اودھ اخبار بار اور صلح کل موجود تھے۔لیکن ان میں فقہیہ کالم شائع نہیں ہوتے تھے۔گویا کہ سنجیدہ اخبارات میں فقہیہ کالم نگاری کا آغاز انیس سو بارہ میں انحلال سے ہوا اس کے بعد جتنے اخبارات بھی منظر عام پر آئے ان سب میں فکاہیہ کالم بار پاتے رہے۔

پنچی نظریات:


بیسویں صدی میں کالم کی صورت میں جو طبیعت سامنے آئے وہ پنچی طنزیات سے بالکل مختلف تھے۔ظرافت میں متانت و سنجیدگی انیس سو سینتالیس سے قبل کے فکاہیہ کالم کے جوہر ہیں۔اس عہد کے کالموں میں مذہبی اور سیاسی موضوعات کو خاص اہمیت حاصل رہی۔ابوالکلام آزاد سعد ظفر علی خان محمد علی جوہر عبدالحمید سالہ سید محفوظ علی بدایونی،عبد الماجد دریابادی،نصراللہ خان عزیز،اور چراغ حسن حسرت اس دور کے اہم فکا ہیہ کالم نگار ہیں۔
ابوالکلام آزاد کی طنزیات ہفت روزہ الہلال اور البلاغ کے حوالے سے سامنے آئیں۔افکار و حوادث الحلال فکا ہیہ کالم تھا۔ان کے سنجیدہ اخبارات میں اسی کالم سے فکا ہیہ کالم نگاری کا آغاز ہوا۔

طنزیہ سیاسی کالم:


افکار و حوادث اپنے موضوع کے لحاظ سے طنزیہ سیاسی کالم تھا۔اس کالم کے ذریعے مولانا نے سیاسی مخالفین کی خوب خبر لی۔مولانا کی طنزمقصدی اور تعمیری ہوتی تھی۔چبھتے ہوئے جملے بلند لب و لہجہ اور لفظی گھن گرج آکر حوادث کے ممتاز اوصاف تھے۔
ابو الکلام آزاد کی طرح فکر انگیز اور میں تین آیت کے فکاہیہ کالم مولانا ظفر علی خان نے زمیندار میں لکھے۔زمیندار کا فقہی کالم افکار و حوادث عبدالمجید سالک لکھا کرتے تھے۔لیکن جب سالک نے اپنا روزنامہ انقلاب جاری کر لیا تو فکاحات کے نام سے یہ کالم ظفر علی خان خود لکھنے لگے۔اگست انیس سو سترہ کو ظفر علی خان نے ایک غیر سیاسی پرچہ ستارے صبح کے نام سے جاری کیا اس میں مولانا جواہر ریزے اور فکاہات کے نام سے دو فکاہی کالم لکھتے تھے۔ظفر علی خان کو لفظوں کے استعمال پر بلا کی قدرت حاصل تھی۔مخالف پر لفظوں کے ایسے لٹھ برساتے کے ایک عرصے تک ان کا اثر محسوس ہوتا تھا۔ظفر علی خان کے ہاں مزاح کم اور طنز کی شدت زیادہ ہے۔غصے کے عالم میں آفس سے باہر ہو جاتے اور پھر وہ کچھ لکھ جاتے جو طبیعتوں کو مکدر کر دیتا۔

کشکول:


اسی دور میں مولانا محمد علی جوہر نے ہمدرد میں کشکول کے نام سے فکاہیہ کالم لکھے تاہم طنز نگاری ان کا وصف خاص نہ بن سکی۔ظرافت کا رنگ کی کا اور چبھن کا احساس کسی قدر تیز ہے۔مولانا محمد علی جوہر اور ظفر علی خان کے ہم عصروں میں سید محفوظ علی بدایونی کی فکاحات اپنے اچھوتے پن ندرت فکر اور پرکشش عنوان کی وجہ سے زندہ ہیں۔قاری کو اپنی طرف کھینچ لینے والے فکاہیہ کالم کا نام تجاہل عامیانہ تھا۔جو محمد علی جوہر کے روزنامہ ہمدرد میں شامل ہوا تھا۔رشید احمد صدیقی نے ان کی ظرافت کے بارے میں لکھا ہے۔
”سید کی ظرافت کی مثال کنول کے پھول سے دے سکتے ہیں پانی کا اتار چڑھاؤ کیسا ہی ہو پھول برابر شگفتہ اور اور تیرتا ہی رہے گا۔ان کی ظرافت میں ان کی شخصیت اجاگر رہتی ہے۔“

محفوظ علی:


محفوظ علی کے کالم طنزیات و مقالات کے نام سے شائع ہو چکے ہیں۔عبد الماجد دریابادی کے فکاہیہ کالم نگاری کا آغاز جاز 1925ء میں ہفت روزہ سچ سے ہوا۔
ان کے طنزیہ کالم کا نام سچی باتیں تھا۔انیس سو سینتالیس تک سچ نکلتا رہا بعد میں اس کا نام صدق اور پھر صدق جدید ہوا۔قیام پاکستان کے بعد ان کا یہی کالم روزنامہ نوائے وقت میں بھی شائع ہوتا رہا۔مولانا کا کالم خالص اسلامی چکا ہیہ کالم تھا۔جس شخص نے بھی اسلامی حسینوں کو ٹھکرایا وہ مولانا کی طنزیات کا نشانہ بنا۔عبدالماجد دریا بادی مخالف کو لتاڑتے اور بچھڑنے کی بجائے شفقت آمیز انداز میں سمجھانے کی کوشش کرتے۔

اسلامی طنزیہ کالم:


مولانا عبد الماجد دریابادی کی طرح نصراللہ خان عزیز نے بھی ایک طویل عرصہ تک خالص اسلامی طنزیہ کالم لکھے۔ان کے موضوعات میں پھیلاؤ اور طنز میں فکر کی روح موجود ہے۔ان کی طنزیات کے سوتے اسلامی اور غیر اسلامی اعمال و افعال کے ٹکرانے سے پھوٹتے ہیں۔نصراللہ خان عزیز نے متعدد اخبارات میں فکاہیہ کالم لکھے۔انیس سو اڑتیس میں انہوں نے زمزم اخبار کے لیے سیر و سفر کا فکاہیہ کالم لکھا۔زمزم سے الگ ہوئے تو مسلمان نکالنے لگے۔مسلمان بند ہوا تو اس کی جگہ کو سر نے لے لی۔

تسنیم کا اجرا:


1947ء میں مولانا نے تسنیم کا اجراء کیا۔تیر و نشتر سیروسفر اور تکلف برطرف صرف نصراللہ خان کے فکاہی کالم تھے۔کالم نگار اپنے اظہار کے لئے تیرونشتر سے کیوں کام لیتا ہے اس سلسلے میں نصراللہ خان عزیز نے لکھا:
”جب زندگی کا نظام بدل جاتا اور نظام زندگی پر ایمان لانے والے چھلکے پر فدا اور مغز سے بے پرواہ ہو جاتے ہیں ہیں تو تو سیدھی سادی نصیحت وواعظ کے واعظ کی طرح نہ صرف خشک اور بے مزہ ہوتی ہے۔بلکہ تاثیر کے اعتبار سے بیکار بھی ہو جاتی ہے۔لوگ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی پکار سنتے ہیں ہیں مگر اس خیال میں رہتے ہیں کہ اس کے مخاطب دوسرے لوگ ہیں۔اس وقت دعوت حق کو تیر و نشتر کے انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ لوگ براہ راست اس کی خلش کو محسوس کریں اور سمجھیں کہ اس کا تخاطب ہم سے ہے۔ نصراللہ خان عزیز نے اسلامی اصولوں کی نفی کرنے والے پر بے باکانہ طنز کی ہے۔انکے کالموں میں فکاہیت کا پہلو دبادبا ہے۔

صحافتی فکاہات:


صحافتی فکاہات کی وہ روایت جسے پنچھی اچھی اخبارات نے زندگی بخشی اسے عبدالمجید سالک اور چراغ حسن حسرت نے بالخصوص پروان چڑھایا۔سالے اور نصرت فکاہیہ کالم نگاری کی تعریف میں نہایت بلند مرتبہ پر فائز ہیں۔عبدالمجید سالک پہلے پہل 20 سے 19 برس تک روزنامہ زمیندار میں فکاہیہ کالم اخبار حوادث لکھتے رہے۔اپریل انیس سو ستائیس میں عبدالمجید سالک نے غلام رسول مہر کے ساتھ مل کر روزنامہ انقلاب جاری کیا اور ان کا کام افکار و حوادث انقلاب کے صفحات پر منتقل ہو گیا۔مولانا سال 1948 تک یہ کالم لکھتے رہے۔آیا سالک کے کالموں میں لطافت و ظرافت کے جو شگوفے پھوٹتے ہیں ہیں انہیں وقت کے گرم و سرد ہوا کا طویل عرصے تک کملا نہ پائے گی۔سالک کے کالم صحافت و ادب کا خوبصورت امتزاج ہیں۔صحافت میں میں اس لیے کہ ان کے زیادہ تر موضوعات ہنگامی نوعیت کے ہیں اور ادب اس لیے کہ سارے کا سارا بھی ادب ہیں۔

سالک:


سالک نے 28 سالوں میں زندگی کے بہت سے نہ ہموار پہلوؤں پر قلم اٹھایا۔انگریزوں کے ساتھ ساتھ وہ مسلمان لیڈر جن پر انگریزوں کے لطف و کرم کی بارش زیادہ ہوتی تھی وہ بھی سالک کے طنز کا نشانہ بنتے تھے۔انیس سو تیس میں علامہ اقبال کو سر کا خطاب ملا تو سل لک اپنے افکار و حوادث میں یوں لکھا:
سوچ تو دل میں لقب ساقی کا ہے زیبا تجھے
انجمن پیاسی ہے اور پیمانہ بے صہبا ترا
کعبہ پہلو میں ہے اور سودائی بت خانہ ہے
کس قدر شوریدہ سر ہے شوق بے پروا ترا
اور ہے تیرا شعار آئین ملت اور ہے
رشت روی سے تری آئینہ ہے رسوا ترا

میاں محمد شفیع:


جناب میاں محمد شفیع کو سر کا خطاب ملا تو کسی نے اخبار نے ایک لفظ تک نہ لکھا لیکن حضرت علامہ اقبال کے سر ہو جانے پر تمام دنیا ادب و سیاست میں تہلکہ مچ گیا۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟وجہ بالکل ظاہر ہے کہ میاں محمد شفیع صاحب کو قوم اپنا نہیں سمجھتی لیکن اقبال ہماری قوم کی آنکھوں کا تارا۔ اگر ہم سے چھن جائے اور حکومت ایک دو حرفی لفظ دکھا کر اسے مور لے تو وہ یقینا ماتم کا مقام ہے۔ اگر آج سے پندرہ سال قبل یہی سر کا خطاب آپ کو دیا جاتا تو ہم ہدیہ تہنیت پیش کرنے میں سب سے پیش پیش ہوتے۔ لیکن جب حکومت برطانیہ کے ہاتھوں جزیرہ عرب کی مقدس سرزمین کی بے حرمتی ہو چکی۔ خلاف المقدسہ الاسلامیہ کو انگلستان کے ہاتھوں فتنہ تاتار سے زیادہ ہولناک حوادث پیش آئے اور اب تک پہنچا ہے کہ ایک دفعہ ہندوستان اور اسلام کو پھیلا کر میدان جدال و قتال میں کھڑا کردے تو ہم اقبال کی برطانوی عزت افزائی پر کیا خوش ہوں اور اب اگر اقبال سر ہوئے تو کیا ہوئے۔
آہ جب گلشن کی جمعیت پریشاں ہو چکی
پھول کو باد بہاری کا پیام آیا تو کیا

فکاہی کالم نگار:


قیام پاکستان سے پہلے ناور فکاہیہ نگاروں میں چراغ حسن حسرت کا بھی شمار ہوتا ہے۔ وہ عبدالمجید سالک کے ہم عصر ہیں۔ ان کی کالم نگاری کا آٖغاز 1935ء میں کلکتہ کے ”عصر جدید“ سے ہوا۔اس میں کوچہ گرد کے نام سے فکاہی کالم لکھتے تھے۔
قیام پاکستان سے پہلے کچھ اور فکاہی کالم نگاروں کے نام بھی آتے ہیں۔لیکن فکا ہیہ کالم نگاری میں انہوں نے منفرد راہ متعین نہ کی۔ ان میں صالح محمد صدیق، ہمراز، ساگر چند گورکھا، نانک چندناز اور نیپالی کے نام قابل ذکر ہیں۔ 20ویں صدی کے آغاز سے لے کر تقسیم ہند تک جتنے بھی فکاہیہ کالم نگار تاریخ کا حصہ بنے، ان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ سیاسی، مذہبی اور معاشرتی اعتبار سے جو کردار مسلمان طنز نگاروں کا نظر آتا ہے، وہ غیر مسلموں کا نہیں۔ اہم بات یہ کہ صحافی کالموں کی صف میں جتنی پذیرائی فکاہیہ کالم کو حاصل ہوئی کسی اور کے حصے میں نہیں آئی۔
……٭……

Leave a Comment