بھیانک انجام

تحریر:محمد فیصل علی

ایک درخت کے اوپر ایک رحم دل کبوتر کا گھر تھا۔ وہ اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ خوشی خوشی رہ رہا تھا۔ ایک رات تیز طوفانی بارش ہوئی اور ہر طرف جل تھل ہو گیا۔ ہوا نے بہت سارے درخت گرا دیے تھے۔ کبوتر کا گھر چونکہ ایک گھنے جھنڈ کے بیچ تھا، اس لیے وہ تباہی سے محفوظ رہا۔ اب سردی بہت بڑھ گئی تھی۔ کبوتر اپنے بچوں کو چھپائے ایک کونے میں بیٹھا تھا۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی، ساتھ ہی ایک جانی پہچانی آواز سنائی دی:
”بھائی دروازہ کھولنا!“
”بھائی پلیز دروازہ کھول دو۔“
کبوتر چونک گیا، یہ تو کوے کی آواز تھی..جو وہاں سے چند میل دور ایک اونچے درخت پہ رہتا تھا۔
وہ اٹھا اور دروازے کے پاس آ کر بولا:
”کوے میاں! خیر تو ہے، آج ادھر کا راستہ کیسے بھول گئے؟“
”بس کیا بتاؤں؟ تم دروازہ تو کھولو!“ کوے کی تھکی تھکی آواز سنائی دی۔
کبوتر نے دروازہ کھول دیا۔ سامنے ہی کوا پانی میں شرابور ٹھٹھر رہا تھا۔
”افف!! تم تو بارش میں بھیگ چکے ہو۔“ کبوتر نے کہا۔
”ہاں، میں ذرا سیر پہ گیا ہوا تھا کہ واپسی پر بارش نے آ لیا۔ میرے پر گیلے ہو چکے ہیں اور میں اب مزید نہیں اڑ سکتا، اور میرا گھر بھی کافی دور ہے..تو…“ کوے نے بے چارگی ظاہر کی اور جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
”تو پھر؟“ کبوتر نے پوچھا۔
”پھر یہ کہ مجھے آج رات یہاں رہنے دو، صبح میں گھر چلا جاؤں گا۔پلیز میری مدد کرو۔“ کوا گڑگڑانے لگا۔
”چلو ٹھیک ہے، لیکن یاد رہے کوئی شرارت نہ کرنا۔“ کبوتر نے کچھ دیر سوچنے کے بعد جواب دیا۔
”نہیں، نہیں میں کیوں شرارت کروں گا، بس مجھے رات گزارنے دیں۔“ کوے نے شریفانہ انداز میں کہا۔
کبوتر ایک طرف ہو گیا، کوا اندر داخل ہو گیا اور اردگرد کا جائزہ لینے لگا.. کبوتر نے اسے ایک کونے میں موجود بستر دکھایا اور بولا:
”تم یہاں سو جاؤ، میں، میری بیوی اور بچے اس کمرے میں سوئیں گے۔“
”ٹھیک ہے بھائی۔“ کوے نے تشکر آمیز لہجے میں کہا اور اپنے پر پھیلا کر بیٹھ گیا۔ کبوتر، کبوتری اور اپنے بچوں کے ساتھ اپنے کمرے میں چلا گیا۔ وہ دن بھر کے تھکے ہوئے تھے اس لیے جلد ہی سو گئے۔ ادھر کوے کو ٹھنڈ لگی ہوئی تھی، تیز ہوائیں بھی دوبارہ چل پڑی تھیں.. جس سے سردی بڑھ رہی تھی اور اسے نیند بھی نہیں آ رہی تھی لہٰذا وہ کمرے میں ٹہلنے لگا… اسی اثنا میں اس کی نظر ایک طرف پڑے انڈوں پر پڑی۔ یہ کبوتری کے انڈے تھے۔ انڈوں کو دیکھ کر اس کی بھوک چمک اٹھی۔ اس کے منہ میں پانی آ گیا۔ اس نے سوچا کہ میں انڈے کھا لوں،مگر اس کے ضمیر نے اسے خبردار کیا:
”اپنے محسن کو نقصان پہنچاؤ گے، جس نے تمہیں پناہ دی؟ایسا ہرگز نہ کرنا۔“
مگر لالچ نے اس کو اندھا کر رکھا تھا اس لیے اس نے ضمیر کی آواز کو نظر انداز کر دیا اور سارے انڈے کھا گیا، اور چھلکے ایک طرف چھپا دیے۔ اس کے بعد وہ آرام سے سو گیا۔
صبح منہ اندھیرے ہی وہ بیدار ہو گیا کیوں کہ کوے جلد بیدار ہونے کے عادی ہوتے ہیں۔ پھر کبوتر کے جاگنے سے پہلے ہی وہ وہاں سے نو دو گیارہ ہو گیا۔ صبح کبوتر اور کبوتری اٹھے تو کوا غائب تھا۔ وہ دونوں دھک سے رہ گئے۔ کبوتری کو فوراً اپنے انڈوں کا خیال آیا۔ وہ بھاگی بھاگی ادھر پہنچی اور انڈوں کو غائب پا کر اس کی چیخ نکل گئی۔
کوا اپنے محسنوں کو زک پہنچا کر بھاگ چکا تھا لیکن قدرت کی لاٹھی بھی بے آواز ہے۔برائی کرنے کا انجام بھی برا ہی ہوتا ہے۔ وہ اڑتا ہوا اپنے گھر پہنچا تو مکافات عمل اس کے سامنے تھا۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ طوفانی بارش کے دوران ایک درخت کی بڑی سی ٹہنی ٹھیک اس کے گھونسلے کے اوپر گری تھی جس سے اس کا گھونسلا اس کے بچوں سمیت پچک گیا تھا اور اس کی بیوی زخمی حالت میں بے ہوش پڑی تھی۔ یہ تھا ظلم کا بھیانک انجام۔ کوے اس کے کیے کی سزا مل چکی تھی…سچ ہے کہ:
جیسا کرو گے، ویسا بھرو گے۔

Leave a Comment