جواب: ایران میں مابعد الطبیعات کا ارتقا:
مابعدالطبیعات میں فلسفہ اور دیگر مجرد علوم اور موضوعات سے بحث کی جاتی ہے۔ یورپ میں ایران کے بارے میں ایسی تحقیقی کرنے کے سلسلے میں محقق کو فارسی، عربی فلسفے اور کسی یورپی زبان کا ماہر ہونا ضروری تھا۔ اقبال یہ تمام اوصاف رکھتے تھے۔ اس زمانے میں ایرانی فلسفہ کے بارے میں مطبوعہ کتب کی بڑی کمی تھی۔ اس کے باوجود انگلستان، فرانس اور جرمنی کے کتب خانے مطبوعات اور مخطوطات سے مالا مال تھے اور اقبال نے ان سے پورا پورا استفادہ کیا۔ جن مخطوطات کے اقبال نے اپنے مقالے میں حوالے دیے ہیں، ان میں سے اکثر برلن کے کتب خانے میں موجود ہیں۔ اقبال نے اصل عربی اور فارسی کتابوں کو پڑھا اور اپنے نتائج تحقیق اخذ کیے مگر انگریزی، جرمنی اور فرانسیسی کی کتابوں کے حوالے بھی ان کے مقالے میں موجود ہیں۔ برصغیر کے تین چار مصنفوں کی کتابیں اقبال کے پیش نظر رہی ہیں مثلاً حضرت داتا گنج بخش سید علی ہجویری (وفات 465ہجری) کی کشف المعجوب، رسالہ خاتمہ از سید محمد گیسو دراز (وفات825ہجری) اور شیخ محسن فانی کشمیری (وفات1082ہجری) سے منسوب دبستان المذاہب ان کے ماخذ میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے علامہ شبلی نعمانی (وفات1914ہجری) کی اُردو کتاب الکلام کے چار پانچ حوالے اپنے مقالے میں شامل کیے۔ اقبال نے دو فارسی شاعروں کے حوالے بھی دیے ہیں۔ حکیم عمر خیام نیشا پوری (وفات672ہجری) کا ایک ہی حوالہ ہے مگر اقبال کے معنوی پیر و مرشد مولانا جلال الدین رومی (وفات672ہجری) کی مثنوی کے متعدد حوالے اور اس کتاب کے اشعار ”ایران میں مابعدالطبیعات کا ارتقاء“ میں منقول ملتے ہیں۔
اشاعت:
اقبال کا یہ تحقیقی مقالہ 1908عیسوی میں لندن سے شائع ہوا۔ 1954ء سے اس وقت تک اس کتاب کے تین ایڈیشن بزمِ اقبال شائع کروا چکی ہے۔ بڑی تقطیع میں مطبوعہ کتاب کے کوئی 150صفحات ہیں۔ بقول پروفیسر ای جی براؤن:
اس کتاب کے حسبِ ذیل چھ ابواب ہیں۔
باب اول: زرشت، بانی اور مزدک کے عقائد کی روشنی میں ایرانی ثنویت
باب دوم: ایران کے نوافلاطونی ارسطا طالینی فلسفوں کے ابن مسکویہ (م421ہجری) اور ابنِ سینا (م428ہجری) پر اثرات۔
باب سوم: دورِ اسلام کی عقلیت کے ایرانی مکاتب فکر، معتزلہ، مکتب تشکیک، تصوف، اسماعیلی عقائد، اشعری افکار، امام محمد غزالی۔
باب چہارم: فلاسفہ ایران کے درمیان حقیقت پسندی اور مثالیت پسندی کا نزاع
باب پنجم: تصوف اور اس کے متعلقات، حکمت صوفیہ کی اہمیت، شہاب الدین سہروردی مقتول کے افکار
باب ششم: زمانہ جدید کا ایرانی فلسفہ، ملا صدر الدین محمد شیرازی اور ملا ہادی سبز واری
مقالے کی اہمیت:
ایرانی مابعد الطبیعات کے بارے میں اقبالؒ کی یہ تحقیقی کتاب کوئی پون صدی پہلے لکھی گئی جس کو اقبالؒ کے قیامِ انگلستان ہی کے زمانے میں لندن کی لوزاک اینڈ کمپنی نے شائع کیا۔ سالِ اشاعت 1908ء درج ہے۔ اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ 1968ء میں تہران میں سیر فلسفہ در ایران، کے عنوان سے اس کا فارسی ترجمہ شائع ہوا، مترجم امیر حسین آریان پور اپنے مقدمے میں اعتراف کرتے ہیں کہ ایرانی مابعد الطبیعات کے بارے میں یہ کتاب اب بھی نہایت اہم ہے اور خود ایرانیوں نے اس سلسلے میں ابھی کوئی زیادہ مفصل اور اس سے عمدہ تحقیق پیش نہیں کی ہے۔
اقبال کا معیارِ تحقیق:
علامہ اقبالؒ کا معیار تحقیق اتنا بلند تھا کہ وہ1927ء میں اس کتاب کے اردو ترجمے کے چنداں روا دار نہ تھے۔ میر حسن الدین کا ترجمہ ”فلسفہ عجم“ برصغیر میں خاصا معروف رہا۔ مترجم نے جب علامہ اقبالؒ سے ترجمہ کرنے کی اجازت مانگی تو علامہ مرحوم نے اپنے مکتوب ۱۱جنوری ۱۹۲۷ء میں لکھا:
”آپ بلاتکلف اس (DevelopmentofMetaphysicsinPersia)کا ترجمہ شائع فرما سکتے ہیں مگر میرے نزدیک اس کا ترجمہ کچھ مفید نہ ہو گا۔ یہ کتاب اب سے اٹھارہ سال پہلے لکھی گئی تھی۔ اُس وقت سے اب تک بہت سے نئے امور کا انکشاف ہوا ہے اور خود میرے خیالات میں بھی انقلاب آ چکا ہے۔ اس کتاب کا تھوڑا سا حصہ ایسا ہے جو تنقید کی زد سے بچ سکے، آئندہ آپ کو اختیار ہے۔“
پی ایچ ڈی کا مقالہ:
اقبالؒ نے یہ کتاب اپنی پی ایچ ڈی کے لیے مقالے کے طور پر لکھی تھی جو بعد میں طبع ہوئی۔ کچھ عرصے کے بعد ان کے خیالات اس کتاب سے بہت مختلف ہو چکے تھے۔ گویا وقت گزرنے پر اقبالؒ کی نظر میں، اُن کی اس تصنیف کی علمی حیثیت و اہمیت ختم ہو چکی تھی۔ اس کا ایک سبب تو یہی ہے کہ اقبالؒ کی اس ابتدائی کاوش کے بعد، اس موضوع پر کئی عالمانہ اور وقیع کتابیں لکھی گئیں مگر اپنی اس فلسفیانہ تصنیف سے اقبالؒ کی عدم دلچسپی اور بے اطمینانی میں یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ فلسفے سے ان کی دلچسپی بہت کم ہو گئی تھی۔
فلسفہ اور مذہب میں تطبیق:
جس طرح اقبالؒ کا فلسفہ ء خودی اور تصورِ حیاتِ انسانی خالص اسلامی اساس پر مبنی ہے اس طرح ان کا فلسفہ ء مابعد الطبیعات بھی وحی و الہام کا رہین منت ہے اور ان کے نظام فکر کا ایک اہم ترین جزو، جس کا تعلق مذہب اسلام کے بنیادی عقائد سے ہے۔ اس میں وجودِ باری، توحید، رسالت، حشرو نشر، وحی و الہام، خیر و شر، وغیرہ کو انہوں نے عقلی دلائل کی بجائے ”اتحادِ عمل“ سے ثابت کیا ہے۔ انہوں نے فلسفہ کو مذہب کا آلہ کار نہیں بنایا بلکہ ان دونوں میں تطبیق پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ یورپ میں سب سے پہلے کانٹ نے مذہب کو فلسفہ کی گرفت سے آزاد کرکے اسے اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیا، اس لیے کہ اس کے نزدیک عقل محض مذہب کی گتھیوں کو سلجھانے سے قاصر ہے، مگر اقبالؒ نے فلسفہ کو مذہب اسلام سے ملانے کی زبردست خدمت انجام دی ہے اور اسی بنیاد پر انھوں نے اپنے فلسفہ مذہب کی تعمیر کی ہے۔
فلسفہ یونان پر تنقید:
ایک طرف انھوں نے فلسفہ یونان پر سخت تنقید کی ہے اور بتایا ہے کہ وہ تمامتر نظری اور ناقابلِ عمل ہے اور دوسری طرف اس بات پر زور دیا ہے کہ محض نظر و قیاس سے ”حقیقتِ کبریٰ“ تک پہنچنا ممکن ہے۔
بقول ڈاکٹر ظفر الحسن:
”وہ کام انجام دیا جو صدیوں پہلے متکلمین اسلام نظام اور ابوالحسن اشعری نے یونانی فلسفہ اور سائنس کے مقابلہ میں انجام دیا تھا۔اقبالؒ نے وحی و الہام، اسرارِ خودی، حقیقتِ کبریٰ اور بقا کے مسائل میں صوفیائے اسلام کا مسلک اختیار کیا تاکہ وجودِ باری کو ثابت کیا جا سکے جو اقبالؒ کے تمام فلسفہ کی اصل بنیاد ہے۔“
زرتشت:
زرتشت ایران قدیم کا ایک مصلح تھا۔ اس کی تعلیمات میں ثنویت یعنی دو خداؤں کا تصور پایا جاتا ہے۔ یزداں اس مذہب میں نیکی کا خدا ہے اور اہرمن برائی کا۔ مانی ایک نقاش تھا جس کی مصوری کی کتاب ارژنگ، معروف رہی۔ اس نے زرتشی مذہب میں کچھ تبدیلیاں کر کے ایک نئے مذہب کے نبی ہونے کا دعویٰ کیا اور بہرام گوراول ساسانی نے اُسے قتل کروا دیا تھا۔ مزدک ساسانیوں کے دور میں زر و زمین وغیرہ کی مساوات کے اشتراکی عقائد لے کر آیا اور قباد کے حکم سے 529ء میں اپنے ہزاروں پیروؤں سمیت قتل ہوا۔
کتاب کے باب اول میں اقبال نے زرتشت کے ثنویتی عقائد سے بحث کی ہے۔ کتاب کا باب پنجم مفصل اور اہم تر ہے۔ اس میں اقبال نے قرآن مجید اور احادیث رسولﷺ کی روشنی میں تصوف اسلام کی حقیقت سمجھائی۔ انھوں نے بعض معروف باتوں کی خوب چھان پھٹک کی اور بعض امور پر انتقادات لکھے مثلاً وہ لکھتے ہیں کہ یہ بات ازوئے تحقیق پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی کہ حضرت رسول اکرمﷺ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ یا حضرت علیؓ کو کوئی خاص باطنی تعلیم دی تھی البتہ حسن عمل، تزکیہ نفس اور انفس و آفاق پر غور کرنا ایسے امور ہیں جو دیگر الہامی ادیان کی طرح اسلامی تعلیمات میں بھی منعکس ہیں۔ کتاب کے آخری باب میں اقبال نے ملا صدر شیرازی (وفات 1640ء) اور ملا ہادی سبزواری (وفات1890ء) کے فلسفے سے بحث کی ہے۔ البتہ کتاب کے تعارف میں اقبال نے لکھا ہے کہ ایرانی لوگ فلسفیانہ ذہن رکھنے کے باوجود کوئی مخصوص نظام فلسفہ نہیں رکھتے۔ ان کا لطیف اور دلآویز فلسفہ ان کی شاعری میں ملتا ہے جسے مدون کر کے ایک نظام فکر کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔
……٭……