سوال: نظم ”مدنیت اسلام“ کا مفہوم اپنے الفاظ میں بیان کریں۔

جواب: مدنیت اسلام:
اقبال نے اس فلسفیانہ نظم میں مسلمان کی آئیڈیل (مثالی) زندگی کا نقشہ کھینچا ہے اور فی الحقیقت یہ نظم بہت غور سے پڑھنے لائق ہے۔ملاحظہ فرمائیں:
بتاؤں تجھ کو مسلماں کی زندگی کیا ہے 
یہ ہے نہایت اندیشہ و کمال جنوں  
طلوع ہے صفت آفتاب اس کا غروب 
یگانہ اور مثال زمانہ گو نا گوں !
نہ اس میں عصر رواں کی حیا سے بیزاری 
نہ اس میں عہد کہن کے فسانہ و افسوں!
حقائق ابدی پر اساس ہے اس کی 
یہ زندگی ہے، نہیں ہے طلسم افلاطوں! 
عناصر اس کے ہیں روح القدس کا ذوق جمال 
عجم کا حسن طبیعت، عرب کا سوز دروں!

نظم کا مفہوم:


1۔ اقبال کہتے ہیں کہ اے مخاطب! کیا میں تجھے یہ بتاؤں کہ ایک سچے مسلمان کی زندگی کیا ہوتی ہے؟ سن! اس کی چند اہم خصوصیات یہ ہیں:مسلمان کی زندگی نہایت اندیشہ اور کمال جنوں کی امتزاج ہوتی ہے۔ یعنی اس کی زندگی میں علم اور عشق دونوں دوش بدوش نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی عقل کی تربیت بھی کرتا ہے اور آپ نے کل کی مخفی قوتوں کو بھی ابھارتا ہے۔ بالفاظ دیگر وہ فکر اور ذکر دونوں کا جامع ہوتا ہے۔
2۔ وہ آفتاب کی طرح اگر ادھر غروب ہوتا ہے تو ادھر طلوع ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی صفات کے لحاظ سے اقوام عالم کے مقابلہ میں یگانہ ہوتا ہے۔ اور اپنی گوناگوں کارفرمائیوں کے لحاظ سے زمانہ کی مختلف شاخیں رکھتا ہے یعنی مومن کو ایک حالت پر قرار نہیں ہے۔
3۔ مومن کی زندگی میں تو عصر حاضر کسی اور یعنی فاشی اور بے حیائی پائی جاتی ہے اور نہ عہد کہن کی روایات اور ضعیف الاعتقادی نظر آتی ہے۔
4۔ مسلمان کی زندگی کی بنیاد ابدی عقائد پر ہوتی ہے اور وہ زندگی کو حقیقی سمجھتا ہے یعنی وہ افلاطون کی طرح زندگی اور کائنات کو غیر حقیقی نہیں سمجھتا۔
5۔ اقبال مسلمانوں کی زندگی کے عناصر ترکیبی کا ذکر کرتے ہیں کہ مسلمان کی زندگی میں تین چیزیں پائی جاتی ہیں:روح القدس کا ذوق جمال، عجم کا حسن طبیعت اور عرب کا سوز دروں۔ اس کی تشریح ہے کہ جس طرح روح القدس، جمال یعنی کی پاکیزگی اور خیر و برکت کا ذوق رکھتی ہے۔ اس طرح مسلمان بھی نیکی پاکیزگی اور اچھی بات کی طرف راغب ہوتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ متقی ہوتا ہے۔

دقیق معانی:


اس نظم کے معانی بہت دقیق ہیں‘ ایک ایک مصرعے بلکہ ایک ایک فقرہ پوری پوری تاریخ کا عطر ہے اور مدنیت بمعنی تہذیب جیسے وسیع و پیچیدہ عمرانی موضوع اور اس موضوع کی نسبت سے اسلام جیسے آفاقی نظریہ حیات کی پہنائیوں‘ تہوں اور بلندیوں کو فقط پانچ اور دس مصرعوں میں سمیٹ لیا ہے لیکن بیان معانی اتنا لطیف ہے کہ تاریخ و تہذیب اور دینیات و اخلاقیات کے گراں قدر اشارات محاورے کی طرح سلیس دوراں عبارت میں تحلیل کر دیے گئے ہیں۔ واقعہ ہے کہ دبازت مفہوم اور نفاست اظہار میں یہ نظم‘ اپنے پیمانے پر اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے اشعار میں اقبال کی فکر اور ان کے فن کا آب زلال قطرہ قطرہ ٹپکتا نظر آتا ہے۔

ڈرامائی تجسس:


پہلا مصرع ایک سیدھا سا سوال ہے اور بالکل سامنے کی بات کے بارے میں ایک ہے بجائے خود یہ کہ ایک چونکا دینے والی بات ہے اور اس سے ایک ڈرامائی تجسس پیدا ہوتا ہے۔ جبکہ دوسرا مصرع صرف د و معمولی اور معروف ترکیبوں کے ذریعے پوری تہذیبی زندگی کی ایک جامع کردار نگاری کرتا ہے اور یہی بات اپنے سیاق و سباق میں ایک اور خاص طریق ادا کے سبب ان ترکیبوں کو بہت ہی معمولی اور زرخیز اور پرخیال بنا دیتی ہے۔ اندیشہ اور جنوں کے الفاظ ارد و اور فارسی میں عقل و عشق کے مترادفات ہیں۔ شاعر نے ان میں ہر ایک لفظ کے ساتھ تکمیل کے مفہوم کی اضافت لگا کر یہ معنی پیدا کیا ہے کہ اسلام صرف عقل یا صرف عشق کی سادگی نیز انتہا پسندی پر مشتمل نہیں ہے بلکہ وہ ایک مرکب ہے عقل و عشق دونوں کا اور دونوں کے درجہ ہائے کمال کا یعنی اسلامی تہذیب انتہا پسندیوں کے درمیان حد درجے کا توازن پیدا کرتی ہے۔ اور اس کا نقطہ اعتدال ہی نقطہ کمال بھی ہے۔ ایک طرف ایمان اتنا محکم کہ اللہ اور رسول اللہؐ کے ہر فرمان پر بلا چون و چرا یقین اور دوسری طرف تدبر اتنا زبردست کہ ارشاد قرآنی کے مطابق انفس و آفاق کی ساری نشانیوں کا مشاہدہ و مطالعہ اور پوری تاریخ انسانی سے عبرت پذیری۔

اسلام کی ابدیت:


دوسرا شعر اسلام کی ابدیت اور امت مسلمہ کے لازوال ہونے کی نہایت حسین تعبیر ہے اور ایک معلوم و معروف مظہر فطرت کی تصویر پر مبنی ہے۔ لیکن مخصوص الفاظ اور ان کی نشست پھر دوسرے مصرعے کی شرح تصویر پر پورے شعر کے مفہوم میں ایک تازگی و طرفگی پیدا کرتی ہے۔ ملت اسلامیہ خدا کے آخری پیغمبر کی حامل ہے اور اس کی شریعت دین کامل ہے۔ لہٰذ ا گردش ایام کی کوئی کروٹ اس کو فنا نہیں کر سکتی۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ اس کی تاریخ میں نشیب و فراز بالکل قدرتی طور پر آئیں اور یہ اسی طرح ہے جیسے آفتاب کبھی کہیں طلوع اور کبھی کہیں غروب ہوتا ہے۔ لیکن اس کا ایک افق پر غروب بھی حقیقت دوسرے افق پر طلوع ہے۔ چنانچہ وہ غروب گویا کبھی نہیں ہوتا۔ صرف اس کے طلوع کے آفاق بدلتے رہتے ہیں اور وہ آسمان وجود کی وسعتوں میں کسی نہ کسی مصلے پر ہمیشہ چمکتا رہتا ہے۔

زمانے کی شان:


تبدیلی آفاق کے ساتھ یہ مدام تابانی خود زمانے کی شان ہے۔ جس میں انقلابات ہوتے رہتے ہیں‘ کبھی ماضی‘ کبھی حال‘ کبھی مستقبل‘ کبھی اچھا وقت کبھی برا وقت لیکن اس گردش ایام میں بھی زمانہ یکساں رفتار سے چلتا رہتا ہے۔ اس میں رکاوٹ کبھی نہیں آتی وہ کہیں بند نہیں ہوتا۔ یہ زندگی کی رنگا رنگی ہے جو ایک بنیادی رنگینی پر مبنی ہے۔ حیات کے رنگ بدلتے رہتے ہیں مگر بے رنگی کبھی نہیں ہوتی۔ آج ایک رنگ ہے کل دوسرا رنگ ہے مگر کوئی رنگ ہے ضرور‘ اس لیے کہ زندگی کا ظہور ہر رنگ میں ہوتا ہے اس طرح عرصہ حیات میں اور انقلابات زمانہ کے درمیان گونا گوں کے ساتھ ساتھ یگانگی بھی قائم ہے۔ ایک حقیقت ابدی کا یہ تنوع ہی اس کے تسلسل پر دلالت کرتا ہے اور مدنیت اسلام کی تاریخ اسی حقیقت کی آئینہ دار ہے۔

جدت و قدامت:


تیسرا شعر جدت و قدامت کے درمیان اسلام کے توازن پر روشنی ڈالتا ہے اور اس مقصد کے لیے ایک طرف عہد قدیم کے اوہام و خرافات کے فسانہ و فسوں کی نفی کی گئی ہے اور دوسری طرف دور جدید کی حیا سے بے زادی کی گئی ہے۔ اس لیے کہ عصر حاضر نے جہاں اقلیت کے زور پر قدیم اساطیر کی حماقتوں سے اپنی بے زاری کا اعلان کیا ہے، وہیں عقلیت کے غلو میں تمام ان آداب و اخلاق سے بھی انکار کر دیا ہے۔ جو انسانی شرافت و متانت کے غلو میں تمام ان آداب و اخلاق سے بھی انکار کر دیا ہے جو انسانی شرافت و متانت کے ضامن تھے اور اس طرح ایک نئی شرارت کا آغاز کیا ہے جس کے سبب خاندانی رشتوں کا تقدس تک غارت ہو رہا ہے۔

حیا داری:


اسلامی تہذیب اس افراط و تفریط سے پاک ہے اس میں روشن خیالی کے ساتھ حیا داری بھی ہے اور حکمت کے ساتھ مروت بھی اس طرز بیان سے فسانہ و فسوں عہد قدیم کی غیر پسندیدہ علامت بن جاتے ہیں اور حیا سے بے زاری عصر حاضڑ کی ناپسندیدہ علامت اس طرح گویا دونوں ادوار کے کرداروں کی بنیادی صفات کا انتخاب کر کے ان کو ان ادوار کی تہذیبی خصوصیات کا پیکر بنا دیا گیا ہے۔ یہ فکری ارتکاز کے ساتھ ساتھ فنی ایجاز بھی ہے۔

خلاصہ و نتیجہ:


تین شعروں میں مدنیت اسلام کے عقل و عشق‘ طلوع و غروب شوخی کردار اور احساس تقدس کے درمیان اعتدال و توازن کی شاعرانہ و مفکرانہ ترجمانی کے بعد چوتھے شعر میں تینوں بنیادی نکات کا خلاصہ و نتیجہ پیش کیا جاتا ہے اور پہلے مصرعے میں ایک جامع بات کہہ دی جاتی ہے کہ جدنیت اسلام کی بنیاد حقائق ابدی پر ہے پھر دوسرے مصرع میں اسی بات کی توثیق و تشریح یہ کہہ کر کی جاتی ہے کہ یہ مدنیت زندگی ہے‘ کوئی طلسم افلاطون نہیں۔ بس یہ تین الفاظ و تراکیب جہان معنی کی کلید ہیں‘ ان پر جتنا زیادہ غور کیا جائے گا اور انہیں اوپر کے اشعار سے بننے والے سیاق و سباق میں رکھ کر بھی دیکھا جائے گا تو ان الفاظ و تراکیب کے مضمرات اپنی تمام وسعتوں اور تہوں کے ساتھ واضح ہوتے جائیں گے۔

حقائق ابدی:


حقائق ابدی ہی زندگی کے ضامن ہیں اور یہ حقائق خالق زندگی کے بنائے ہوئے ہیں اور بتائے ہوئے ہیں‘ کسی انسان کی محدود نظر کے تیار کردہ طلسمات خیال نہیں ہیں‘ جیسا کہ محاورے اور ضرب المثل میں‘ طلسم افلاطون ہے جسے غیر عملی اور دوراز کار باتوں ک مفہوم میں طنز کے طو ر پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ شان حقائق ابدی ہی کی زندگی کی ہے کہ اس میں عشق کی حد تک ایمان کے ساتھ ساتھ فکر و خرد کی بھی کارفرمائی ہوتی ہے اور اس مرکب حیات کو کبھی زوال نہیں ہوتا۔ صرف اس کے احوال بدلتے رہتے ہیں۔ زمانے کے ہر نشیب و فراز میں یہ مرکب اپنی کوئی نہ کوئی شان‘ کبھی جلال و قوت کی اور کبھی جمال و لطافت کی‘ دکھاتا ہی رہتا ہے اور ہر حال میں اپنے وقار و متانت کو قائم رکھتا ہے۔ روشن خیالی کے ساتھ ہی شریفانہ اخلاق کی پیروی کرتا ہے۔

مدنیت کی آفاقی ترکیب:


مدنیت اسلام کی تعریف و تشریح کے بعد آخری شعرمیں اس مدنیت کی آفاقی ترکیب کے جمال و کمال کی نشاندہی کے لیے نہایت دل آویز اور بصیرت افرو زپیکر تراشے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے تو مدنیت کے ان عناصر ترکیبی کو جن کا ذکر قبل کیا گیا‘ روح القدس کا ذوق جمال‘ قرار دے کر ان کے منزل من اللہ ہونے کی ایک انتہائی شاعرانہ تعبیر کی گئی۔ مدنیت اسلام کے عناصر دراصل اس وحی سے تشکیل پائے ہیں جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسل پر نازل ہوئی اور جس فرشتے کے ذریعے نازل ہوئی، وہ حضرت جبرئیل علیہ السلام ہیں جنہیں روح القدس کہا جاتا ہے۔ اول تو جبرئیل کے علم کی جگہ روح القدس کے لقب کا استعمال شعریت سے معمور ہے۔ دوسرے وحی کو ذوق جمال کہہ کر مذہب کی جمالیاتی قدر پر زور دیا گیا ہے جو اہل مذہب کے نزدیک ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔

وحی الٰہی:


وحی الٰہی کو روح القدس کا ذوق جمال کہنے میں ازروئے حقیقت کوئی مضائقہ نہیں خود قرآن نے بارہا وحی کا فاعل حضرت جبرئیل کو قرار دیا ہے۔ گرچہ حسب موقع واضح کر دیا گیا ہے کہ یہ وحی وہ بحکم الٰہی کرتے تھے اور وہ کتاب اللہ کے اوراق یا نکات پر مشتمل تھی۔ جس کی رسولﷺ تک ترسیل میں فرشتے کی حیثیت صرف قاصد اور وسیلے کی تھی۔ بہرحال آخری شعر کے مصرع اول میں روح القدس کا ذوق جمال کے بیان کی تفصیل دوسرے مصرعے میں اس طرح کی جات ہے کہ اس ذوق جمال کے دو بنیادی عوامل ہیں‘ ایک عجم کا حسن طبیعت دوسرا عرب کا سوز دروں ان عوامل میں ایک کا تعلق ظاہر کی جسمانی نفاست سے ہے اور دوسرے کا باطن کے روحانی لطافت سے۔ اس طرح اسلامی تہذیب کو حسن ظاہر اور حسن باطن کا جامع قرار دے کر اس کے متوازن کردار کی تکمیل کر دی گئی ہے۔ یہ تکمیل جن لفظوں میں کی گی ہے وہ بہت معنی خیز ہیں عجمی نفاست کو حسن طبیعت‘ اور عربی لطافت کو سوز دروں کہا گیا ہے۔ ایک طرف جمال ہے اور دوسری طرف جلال اور ایک نقطہ کمال ہے جس طرح عقل و عشق کے ادغام میں ہم نظم کے آغاز پر دیکھ چکے ہیں۔

عقل اور عشق کی کارفرمائی:


اگر غور کیا جائے تو حسن اور سوز میں عقل اور عشق کی کارفرمائی نظر آئے گی نفاست ایک سلیقہ چاہتی ہے۔ جو عقل کی دین ہے اور لطافت اصلاً ایک جذبہ دل ہے جس کا سرچشمہ عشق ہے لیکن حسن و خرد اور جنون سے وابستہ ہو ئے بھی ان سے اک ذرا مختلف ہیں خرد اور جنون ذہن و قلب کی کیفیات ہیں جبکہ حسن و سوز ان کیفیات کے عملی رویے ہیں۔ اب غور کرنا چاہیے کہ مدنیت اسلام کے عربی الاصل ہونے کے باوصف اس میں ایک عجمی عنصر کا بھی اقرار کیا جارہا ہے۔ یہ دراصل اسلامی تہذیب کی موجودہ شکل کی تاریخی تعبیر ہے۔ اصلاً یہ تہذیب و فکر و ایمان کا ایک معتدل مرکب ہے۔ جس کی تشکیل ابتداً حجاز ہی میں ہوئی جو اس کا سرچشمہ اور مرکز ہے۔ لیکن بہت جلد اپنی تاریخ کے دور اول ہی میں یہ تہذیب حجاز سے آگے بڑھ کر شام و عراق و فارس و ہندو چین نیز ممالک مغرب تک پھیل گئی اور عرب سے طلوع ہونے والا تمدن صدیوں تک عجم کی وسعتوں میں پروان چڑھتا ہے۔

جامع تاریخی نقطہ نظر:


اقبال مدنیت اسلام کا ایک جامع تاریخی نقطہ نظر پیش کرتے ہیں جس کا جواز خود عنوان نظم اور موضوع تخلیق میں مضمر ہے۔ یہ موضوع ظاہر ہے کہ عقیدہ اسلامی کا نہیں ہے تہذیب اسلامی کا ہے لہٰذا اس میں ایمانیات کے ساتھ ساتھ اخلاقیات اصول کے ساتھ ساتھ اعمال تصورات کے ساتھ ساتھ ترقیات بھی شامل ہیں‘ اور شاعر اس پورے مرکب کو روح القدس کا ذوق جمال کہتا ہے۔ یہ شاعر بھی ہے اور دانش وری بھی جس کا جامع مفہوم یہ ہے کہ اپنی منزل من اللہ بنیادوں پر ملت اسلامیہ نے اقصائے عالم میں جتنی بھی ذہنی و اخلاقی اور مادری و روحانی ترقیات کی ہیں وہ سب مدنیت اسلام ہیں اس تشریح سے اقبال کی فکر میں اساسیتFundamentalismکے ہمراہ تازگی خیال کا بھی بین ثبوت ملتا ہے اور یہی توازن و ترکیب ہے جو اقبال کے فن کی فوقیت اور آفاقیات کی ضامن ہے چنانچہ خود ان کے کلام میں عجم کے حسن طبیعت پر مبنی استعارات و علائم کے ساتھ ساتھ عرب کے سوز دروں پر مبنی آہنگ نغمہ بھی ہے۔ اور دونوں کے میل تال سے ایک ولولہ انگیز طلسم شاعری مرتب ہوتا ہے جو ثقیل اور دقیق افکار کی متانت کو فن لطافت میں تبدیل کر دیتا ہے۔

مسلمان کی نظر میں دنیا:


افلاطونی مسلک نے تہذیب و ثقافت پر جو مضر اثرات مرتب کیے اور مسلمانوں کو اس فلسلفہ سے جو نقصان پہنچا، اسی نے اقبال کو اس فلسفہ کی تردید پر آمادہ کیا۔ چناچہ انہوں نے اسرار خودی میں پوری قوت کے ساتھ افلاطونی فلسفہ کی تردید کی ہے اور اس کے علاوہ ہر کتاب میں ضمنی طور پر اس فلسفہ کی خرابی کو واضح کیا ہے۔غرض اقبال کہتے ہیں کہ مسلمان کی نظر میں دنیا اور اس کی زندگی حقیقی ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی کائنات ایسی موجود نہیں جس کی یہ کائنات نقل یا ظل ہو۔ قرآن مجید نے اس دنیا کو یا انسانی زندگی کو غیر حقیقی یعنی موہوم قرار نہیں دیا بلکہ حقیقی قرار دیا ہے۔
……٭……

Leave a Comment