جواب:مردِ مومن کے تصور کا اسلامی پسِ منظر:
”روزگار فقیر“ کے مصنف فقیر سید وحیدالدین کہتے ہیں کہ قرآن کا یہ ارشاد ہے کہ خود تمھارے وجود کے اندر اس کی نشانیاں ہیں۔ علامہ اقبال کو اول اول خودی کی اہمیت کے حوالے سے متاثر کر گیا تھا۔ اسی طرح یہ روایات کہ:
”جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اُس نے اپنے خدا کو پہچان لیا“
عمل کے ناتے خودی ہی کی انفرادی ذمہ داری کی دلالت کرتا ہے خود یا ان کی انفرادی صورت ہی نہیں اللہ کی انائے کبیر کے ساتھ اس کا تعلق بھی اسلامی روایات سے مل جاتا ہے۔ آنحضور ﷺ نے جب کفار کو کنکریاں ماریں تو اس حوالے سے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
”جب کنکر مارے تو وہ تو نے نہیں مارے بلکہ اللہ نے مارے۔“
اقبال کا تصور مومن:
اسلامی فکر وجود انسانی کا اثبات کرتی ہے۔ اسی باعث سید عبدالواحد نے اقبال کے تصور خود میں مولانا روم کے تصور خودی کے تین اہم نکات کی طرف اشارہ کیا ہے۔
ایک: مرد مومن
دو: مرد مومن کی عرفانیت اور روحانیت
تین: لا حدود خودی (اللہ) اور خودی (انسان) کا ربط
اقبال نے خود کو مرید ہندی کہہ کر مرشد رومی کی رہنمائی قبول بھی کی ہے۔ رومی کے ہاں بڑے انسان کی آرزو بھی ملتی ہے اور اس کی ضرورت کا احساس بھی۔ رومی نے کہا تھا:
دی شیخ با چراغ ہمی گشت گرد شہر
کز دام ودو ملولم و انسانم آرزوست
(کل شیخ ہاتھ میں دیا لیے شہر بھر میں گھومتا رہا یہ کہتے ہوئے کہ میں کیڑوں مکوڑوں اور جانوروں جیسے انسانوں سے بے زار ہو گیا ہوں آدمی ڈھونڈتا ہوں)
اس ساری غزل میں رومی نے بڑی عمدگی سے مرد مومن کی رہ نمائی کی ہے۔ ویسے بھی رومی شعری فضا عشق کی جس مستی سے لبریز ہے، اس کے ڈانڈے بھی اقبال کے تصور عشق سے ملتے ہیں کہ رومی کے ہاں بھی عشق بھی جذب و عمل کی سرخوشی سے عبارت ہے۔ شیخ اکبر محی الدین العربی کے بھی ذات مطلق کے ظہور کے مدارج کے ساتھ انسانی کردار کے ارتقا کے تصورات ملتے ہیں، اسی طرح فلسفی عبدالکریم جبلی کے ہاں بھی انسانی کردار کی ارتقائی صورت کی آرزو ملتی ہے۔ اقبال مرد مومن کی علامت کے طور پر لالہ کے پھول کو کئی جگہ سامنے لاتے ہیں۔
خیاباں میں ہے منتظر لالہ کب سے
اقبال چاہیے اس کو خون عرب سے
لالہ کے پھول سینے میں داغ، مرد مومن کے دل داغ داغ کی علامت ہے، صاف ماحول میں کھلا ہوا لالہ مرد مومن کے اہل صفا ہونے سے عبارت ہے۔
مرد مومومن کا مآخذ:
اقبال نے مرد مومن کا تصور کہاں سے اخذ کیا؟اس حوالے سے مختلف آرا ملتی ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس کی اساس خالصتاً اسلامی تعلیمات پر ہے اور اس سلسلہ میں اقبال نے ابن مشکویہ اور عبدالکریم الجیلی جیسے اسلامی مفکرین سے بھی استفادہ کیا ہے۔ ایک گروہ اس تصور کو مغربی فلسفی نیٹشے کے فوق البشر کا عکس بتاتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اقبال نے خیال قدیم یونانی فلاسفرز سے حاصل کیا ہے۔ اور کچھ اسے مولانا روم کی دین قرار دیتے ہیں۔ اس لیے ان تمام مختلف اور متضاد آرا کے پیش نظر ضروری ہے کہ مرد مومن کے متعلق بات کرنے سے قبل ان افکار کا جائزہ لیا جائے جو مشرق اور مغرب میں اقبال سے قبل اس سلسلہ میں موجود تھے۔
مشرقی و مغربی تصورات سے واقفیت:
یہ مرد مومن وہی ہے جس نے اپنی خودی کی پوری طرح تربیت و تشکیل کی ہے اور تربیت اور استحکامِ خودی کے تینوں مراحل ضبط نفس، اطاعت الہٰی،اور نیابت الہٰی طے کرنے کے بعد اشرف المخلوقات اور خلیفتہ اللہ فی الارض ہونے کا مرتبہ حاصل کر لیا ہے۔اقبال انسان کامل کے تمام مشرقی و مغربی تصورات سے واقف ہیں اور ان سے انہوں نے استفادہ ضرور کیا ہوگا۔ لیکن ان کے مرد مومن کی صفات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ انہوں نے اس تصور کی بنیاد صرف اسلامی تعلیمات پر ہی رکھی۔ اُن کی تصور خودی میں فرد کے لیے مردمومن بننا اور جماعت کے لیے ملت اسلامیہ کے ڈھانچے میں ڈھلنا ایک اعلیٰ نصب العین کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ تصور محض خیالی نہیں بلکہ حقیقی ہے کیونکہ اسلام کے عروج کے زمانہ میں ایسی ہستیاں موجود رہی ہیں۔
عبدالکریم جبلی:
”انسان کامل یا مرد مومن کی زندگی، جو آئین الہٰی کے مطابق ہوتی ہے، فطرت کی عام زندگی میں شریک ہوتی ہے اور اشیائکی حقیقت کا راز اس کی ذات پر منکشف ہو جاتاہے۔ اس منزل پر پہنچ کر انسان کامل غرض کی حدود سے نکل کر جوہر کے دائرے میں داخل ہو جاتا ہے۔ اس کی آنکھ خدا کی آنکھ، اس کا کلام خدا کا کلام اور اس کی زندگی خدا کی زندگی بن جاتی ہے۔یہی وہ نکتہ ہے جہاں انسانیت اور الہٰیت ایک ہو جاتی ہیں اور اس کا نتیجہ انسانِ ربانی کی پیدائش ہے۔“
نطشے:
نطشے مشہور جرمن فلسفی ہے جس نے اپنی کئی کتابوں میں فوق البشر انسان کے تصور کو پیش کیا ہے۔ نطشے اوائل عمری میں خدا کا منکر تھا۔ بعد میں اسے ایسے انسان کی تلاش کی لگن ہوگئی جو سپر مین، فوق البشر یا مرد برتر کہلا سکے۔اس بارے میں وہ کہتا ہے:
”فوق البشر وہ اعلی فرد ہوگا جو طبقہ اشرافیہ سے ظہور کرے گا اور جو معمولی انسانوں کے درمیان میں خطرات کو جھیلتے ہوئے اُبھرے گا اور سب پر چھا جائے گا۔“
نطشے نسلی برتری کا زبردست حامی ہے اور مخصوص نسل کو محفوظ رکھنے اور خصوصی تربیت و برداخت پر خاص زور دیتاہے۔ فوق البشر کیلئے مروجہ اخلاقیات کو وہ زہر سمجھتا ہے۔ اور اس اسے غلامانہ اخلاق سے دور رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ اور اسے خیر و شر کے معیار سے ماورا خیال کرتا ہے۔ اور اس کے مقاصد کے پیش نظر ہر قسم کی جنگ کو جائز قرار دیتا ہے۔ بقول پروفیسر عزیز احمد:
” نطشے کے فوق البشر کی تین خصوصیات ہیں۔ قوت فراست اور تکبر“
اقبال کے کلام میں مرد مومن کی خصوصیات:
اقبال کے کلام میں مرد مومن کی صفات اور خصوصیات کو کافی تفصیل سے پیش کیا گیا ہے اور ان صفات کا بار بار تذکر ہ اس صورت سے کیا گیا ہے۔ کہ اسکی شخصیت اور کردار کے تمام پہلو پوری وضاحت سے سامنے آجاتے ہیں۔ یہ مرد مومن وہی ہے جس نے اپنی خودی کی پوری طرح تربیت و تشکیل کی ہے اور تربیت اور استحکامِ خودی کے تینوں مراحل ضبط نفس، اطاعت الہٰی،اور نیابت الہٰی طے کرنے کے بعد اشرف المخلوقات اور خلیفتہ اللہ فی الارض ہونے کا مرتبہ حاصل کر لیا ہے۔ اسکے کردار اور شخصیت کی اہم خصوصیات کلام اقبال کی روشنی میں مندرجہ ذیل ہیں۔
تسخیر کائنات:
اقبال کا مرد مومن حیات و کائنات کے قوانین کا اسیر نہیں بلکہ حیات و کائنات کو اسیر کرنے والا ہے۔ قرآن مجید نے انسانوں کو تسخیر کائنات کی تعلیم دی ہے اور مرد مومن عناصر فطرت کو قبضے میں لے کر ان کی باگ اپنی مرضی کے مطابق موڑتاہے۔ وہ وقت کا شکار نہیں بلکہ وقت اس کے قبضہ میں ہوتا ہے۔
جہاں تمام ہے میراث مرد مومن کی
مری کلام پہ حجت ہے نکتہ لولاک
مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر
ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر
گویا کافرکا کمال صرف مادہ کی تسخیر ہے لیکن مردمومن مادی تسخیر کو اپنا مقصود قرار نہیں دیتا بلکہ اپنے باطن سے نئے جہانو ں کی تخلیق بھی کرتا ہے۔ وہ زمان و مکان کو اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ عرفانِ خودی کے باعث اسے وہ قوت حاصل ہو جاتی ہے جس سے حیات و کائنات کے اسرار و رموز اس پر منکشف ہوتے ہیں اور اسکی ذات جدت و انکشاف اور ایجاد و تسخیر کی آماجگاہ بن جاتی ہے۔ وہ اپنے عمل سے تجدید حیات کرتاہے۔ اسکی تخلیق دوسروں کیلئے شمع ہدایت بنتی ہے۔
نیابت الٰہی:
بقول ڈاکٹر یوسف حسین خان، ”اپنے نفس میں فطرت کی تمام قوتوں کو مرتکز کرنے سے مرد مومن میں تسخیر عناصر کی غیر معمولی صلاحیتیں پیداہو جاتی ہیں جن کے باعث وہ اپنے آپ کو نیابت الہٰی کا اہل ثابت کرتا ہے اور اسکی نظر افراد کے افکار میں زلزلہ ڈال دیتی ہے۔ اور اقوام کی تقدیر میں انقلاب پیدا کر دیتی ہے۔
عشق کے تابع:
بندہ مومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی تمام تر کوششوں کو عشق کے تابع رکھے۔ نہ صرف خودی کا استحکام عشق کا مرہون ِ منت ہے بلکہ تسخیر ذات اور تسخیر کائنات کیلئے بھی عشق ضروری ہے اور عشق کیا ہے؟ اعلیٰ ترین نصب العین کے لیے سچی لگن، مقصد آفرینی کا سر چشمہ، یہ جذبہ انسان کو ہمیشہ آگے بڑھنے اور اپنی آرزؤں کو پورا کرنے کے لیے سر گرم عمل رکھتا ہے۔ یہ جذبہ مرد مومن کو خدا اور اس کے رسول کے ساتھ گہری محبت کی بدولت عطا ہوتا ہے۔ اسی کے ذریعہ سے اس کے اعمال صالح اور پاکیزہ ہو جاتے ہیں، اسے دل و نگاہ کی مسلمانی حاصل ہوتی ہے اور کردار میں پختگی آجاتی ہے۔
شاہین کی علامت:
شاہین کی علامت مرد مومن کے لیے زیادہ استعمال ہوئی ہے اور یہ علامت تکرار اور مباحث میں بھی بہت آئی۔ شاہین کی صفات حیرت انگیز طور پر بلندی کردار کا ایک استعارہ بنتی ہیں، وہ دوربین ہے۔ بہت بڑے فاصلے سے شکار کو دیکھ سکتا ہے۔ اس کے بازو سب پرندوں سے زیادہ توانا ہوتے ہیں، وہ سیدھا نوے درجے کے عمودی زاویے پر بھی اُڑان لے سکتا ہے۔ خود شکار کرتا ہے، دوسرے دن کے لیے چھپا بچا کر نہیں رکھتا۔ وہ صاحب ترک دنیا بھی ہے کہ خود گھونسلہ نہیں بناتا، کھلے موسموں میں جی لیتا ہے۔یہ ساری صفات اقبال کو مرد مومن والی صفات لگتی ہیں:
حمام و کبوتر کا بھوکا نہیں میں
کہ ہے زندگی باڑ کی راہبانہ
جھپٹنا، پلٹنا پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے ایک بہانہ
ترقی پسند اہل قلم:
ترقی پسند اہل قلم نے اگرچہ خود طاقت کے فلسفے کو رد نہیں کیا تاہم شاہین کے جھپٹنے پلٹنے کو دوسرے پرندوں کی جاں کے ضیاع کی قیمت پر قبول نہیں کیا اور بعض ایک نے اسے خون آشانی کہا۔ نظریاتی طور پر کتنے ہی لطیف مباحث اس بابت کیے جائیں مگر حقیقت وہی ہے جو اقبال نے بتائی کہ:
فطرت لہو ترنگ ہے غافل نہ جلترنگ
مرد مومن کے مختلف نام:
اقبال کے افکار میں ”مرد مومن“ یا ”انسان کامل“کا ذکر جا بجا ملتا ہے۔ اس کے لیے وہ ”مرد حق“ ”بندہ آفاقی“ ”بندہ مومن“ ”مرد خدا“ اور اس قسم کی بہت سی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں حقیقتاً یہ ایک ہی ہستی کے مختلف نام ہیں جو اقبال کے تصور خودی کا مثالی پیکر ہے۔
نقطہ پرکار حق مرد خدا کا یقیں
اور عالم تم، وہم و طلسم و مجاز
عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث
مومن نہیں جو صاحب ادراک نہیں ہے
ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ
غالب وکار آفریں، کار کشا، کارساز
کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زور بازو کا
نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
اقبال کے تصور مرد مومن کی شان:
اقبال انسان کامل کے تمام مشرقی و مغربی تصورات سے واقف ہیں اور ان سے انہوں نے استفادہ ضرور کیا ہوگا۔ لیکن ان کے مرد مومن کی صفات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ انہوں نے اس تصور کی بنیاد صرف اسلامی تعلیمات پر ہی رکھی۔ اُن کی تصور خودی میں فرد کے لیے مردمومن بننا اور جماعت کے لیے ملت اسلامیہ کے ڈھانچے میں ڈھلنا ایک اعلیٰ نصب العین کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ تصور محض خیالی نہیں بلکہ حقیقی ہے کیوں کہ اسلام کے عروج کے زمانہ میں ایسی ہستیاں موجود رہی ہیں۔
اب یہ بات بلا خوف کہی جا سکتی ہے کہ اقبال کا انسان کامل، مسلمان صوفیاء کے انسان کامل اور نیٹشے کے مرد برتر سے مختلف ہے اور اپنی مخصوص شخصیت، منفرد کردار، نرالی آن بان کے باعث وہ دوسروں کے پیش کردہ تصورات کی نسبت زیاد ہ جاندار، متوازن، حقیقی اور قابل ِ عمل کردارہے۔
……٭……٭……