غزوۂ احد کے جانثاران رسولﷺ

تحریر:احمد خلیق، لاہور

لَا يُؤْمِنُ أَحَدُکُمْ حَتَّی أَکُونَ أَحَبَّ إِلَيْہِ مِنْ وَالِدِہِ وَوَلَدِہِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ (صحیح البخاری: 15)
ترجمہ: تم میں سے کوئی شخص کامل ایمان والا نہ ہو گا جب تک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ اس کے دل میں میری محبت نہ ہو جائے۔
یہ حق اور سچ ہےکسی بندے کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک حضرت محمد مصطفی علیہ الف الف صلوات و التسلیمات کی ذات بابرکات اسے دنیا و مافیہا سےبڑھ کر محبوب نہ ہو جائے۔اس دنیا و مافیہا میںتمام محبوب و قریبی رشتوں اور تعلقات کے، اور ہمہ قسم کی دنیاوی و مادی اشیاء کے، بندے کی اپنی جان بھی شامل ہے۔ چنانچہ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے:
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ ۔ ۔ ۔ (سورۃ الاحزاب: 6)
ترجمہ: ایمان والوں کے لیے یہ نبی اُن کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ قریب تر ہیں ۔ ۔ ۔
آیت بالا کے اس جز کی تفسیر میں بخاری شریف کی ایک حدیث مذکور ہے جسے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سراپا و مجسم رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “کوئی مومن ایسا نہیں ہے جس کے لیے میں دنیا و آخرت میں سارے انسانوں سے زیادہ اولیٰ و اَقرب نہ ہوں، اگر تمھارا دل چاہے تو اس کی تصدیق کے لیے قرآن کی یہ آیت پڑھ لو اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ“۔
اس اٹل حقیقت کا واشگاف اظہار حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی اس حدیث مبارکہ سے ہوتاہےکہ جس میں آپ رضی اللہ عنہ نےبارگاہ رسالت کے حضور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں، سوا میری اپنی جان کے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہیں، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے (ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا) جب تک میں تمہیں تمہاری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز نہ ہو جاؤں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: پھر واللہ! اب آپ مجھے میری اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، عمر! اب تیرا ایمان پورا ہوا۔ (بخاری: 6632)
بلاشبہ یہ کھلی آنکھوں مشاہدہ ہے کہ زبان سے عشق و محبت رسولﷺ کے جتنے مرضی دعوے ہوتے رہیں، فی زمانہ ہمارے افعال برعکس تصویر پیش کرتے ہیں۔ یہ سراسر ایمانی ضعف کی علامت ہے کہ ہم دیگر چیزوں اور شخصیتوں کونبیﷺپر فوقیت اور اولیت دیتے معلوم ہوتےہیں، لیکن ٹھہریے!۔۔۔ ساڑھے چودہ سو سال پہلےایک ایسی جماعت گزری ہے جس نے نہ صرف قول وقرار سے بلکہ اپنے عمل سے بھی اس حکم نبوی کو رہتی دنیا کے لیے بطورنمونہ اور مثال پیش کیا۔۔۔ جی ہاں! وہ تھی صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی جماعت !!۔ حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ آپ لوگوں کی جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی کیفیت کیاتھی؟ آپؓ نے ارشاد فرمایا۔” اللہ کی قسم آپ کی ذاتِ گرامی ہمارے نزدیک ہمارے اموال ، اولاد ، ماں باپ اور پیاسے کو جس قدر ٹھنڈا پانی مرغوب ہوتا ہے اس سے بھی زیادہ محبو ب تر تھی”۔ (الشفاء) بلاشبہ آپﷺ کی ذات عالیہ انہیں ہر چیز سےزیادہ محبوب تھی، حتی کے ان کی نظر میںاپنی جانوں کی بھی کوئی وقعت نہیں تھی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت زید بن دثنہ اور حضرت خبیب بن عدی رضی اللہ عنہما کو جب قریش مکہ کی طرف سے (مختلف اوقات میں)شہید کیا جانے لگا تو سوال کیا گیا: کیا تم اس کو پسند کروگے کہ ہم تم کو چھوڑ دیں اور محمد (ﷺ) کو تمہارے بدلے میں قتل کردیں، اور تم اپنے گھر آرام سے رہو؟، قربان جائیے ان صحابہ کرام کی عزیمت اور محبت پر! دونوں نے ایک سی بات فرمائی: ’’اللہ کی قسم مجھے یہ بھی گوارا نہیں کہ حضور اقدس ﷺجہاں ہیں وہیں ان کے پیر مبارک میں ایک کانٹا بھی چبھے اورمیں اپنے گھر میں بیٹھا رہوں۔‘‘
کہتے ہیں کہ اصل تعریف وہ ہے جومخالف یا دشمن بغیر کسی خوف یا لالچ کے برسر عام کرے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب عروہ بن مسعود ثقفی(رضی اللہ عنہ۔۔۔ غزوۂ طائف کے بعد اسلام لائے) سفارت کی غرض سے آئے تو انہوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تعامل کو بغور دیکھا اور واپس جا کر قریش مکہ کے سامنے گویا ہوئے: “اے لوگو! قسم اللہ کی میں بادشاہوں کے دربار میں بھی وفد لے کر گیا ہوں ‘ قیصر و کسریٰ اور نجاشی سب کے دربار میں ہو آیا ہوںلیکن اللہ کی قسم میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی بادشاہ کے ساتھی اس کی اس درجہ تعظیم کرتے ہوں جتنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کرتے ہیں۔ قسم اللہ کی اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بلغم بھی تھوک دیا تو ان کے اصحاب نے اسے اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور اسے اپنے چہرے اور بدن پر مل لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اگر کوئی حکم دیا تو ہر شخص نے اسے بجا لانے میں ایک دوسرے پر سبقت کی کوشش کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر وضو کیا تو ایسا معلوم ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو پر لڑائی ہو جائے گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب گفتگو شروع کی تو ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ ان کے دلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم کا یہ عالم تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر بھر کر بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ انہوں نے تمہارے سامنے ایک بھلی صورت رکھی ہے ‘ تمہیں چاہیے کہ اسے قبول کر لو”۔ (بخاری: 2732)اللہ اکبر! صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی عقیدت و شیفتگیِ رسولﷺ کو اس سے بہتر الفاظ کا جامہ نہیں پہنایا جا سکتا۔ مگر اس مشاہدہ سے قبل عروہ کے خیالات مختلف تھے۔ آغاز سفارت کاری میں انہوں نے آنحضرت ﷺ سے کہا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! بتائیے۔ ۔ ۔اگر دوسری بات واقع ہوئی (یعنی ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر غالب ہوئے) تو میں اللہ کی قسم تمہارے ساتھیوں کا منہ دیکھتا ہوں یہ مختلف جنسوں کےلوگ یہی کریں گے۔ اس وقت یہ سب لوگ بھاگ جائیں گے اور آپ کو تنہا چھوڑ دیں گے۔ اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ طیش میںآتے ہوئے بولے: کیا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے بھاگ جائیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تنہا چھوڑ دیں گے!؟۔۔۔(ایضا)صدق و صفاکے پیکر نے سچ فرمایا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ حضورعلیہ التحیۃ و التسلیم پر کوئی آزمائش آئے اور ہم آپﷺ کے جانثار صحابہ جن کا وظیفہ ہی “فداک ابی و امی یا رسول اللہﷺ” ہے دفاع کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے کو آس پاس موجود نہ ہوں۔ تاریخ گواہ ہے تعداد کی قلت ہو یا کثرت،، جارحانہ جنگ کرنی ہو یا دفاع مقصود ہو،فتح مندی نصیب ہو یا شکست و پسپائی کا سامنا ہوہرہر موقع پر اصحاب رسول آپﷺ کےہمرکاب رہے اور پیٹھ دکھانے کو اپنے لیے ہلاکت تصور کیا ۔اور اس مقدمہ کے اثبات کے لیےغزوۂ احد سے بہتر مثال کیا ہوسکتی ہے جب ایک موقع پر جنگ کا پانسہ پلٹا، کفار مکہ کا زور بھاری پڑنے لگا اور وہ ہجوم کرتے ہوئےحبیب کبریا ﷺ کی جانب بڑھے تو ایسے کڑےوقت میں بھی صحابہ کرام کی ایک مختصر جماعت نےآپ ﷺ کا ساتھ نہیں چھوڑا اوراپنے سینوں، کمروں، ہاتھوں، انگلیوں، یہاں تک کے آنکھوں کے ذریعےسے سرور کونینﷺ کاوہ بے مثال دفاع کیا کہ تاریخ عالم اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ذیل میں انہی جانثار صحابہ کرا م رضی اللہ عنہم کی فداکاری اور وارفتگی کا تذکرہ فرداً فرداً پیش کیا جاتا ہے۔


حضرت عمارۃ بن زیاد بن سکن (یا زیاد بن سکن) اور ساتھی انصاری صحابہ رضی اللہ عنہم


جب کفار مکہ نے آنحضرت ﷺ پر پہلا ہلہ بولا تو اس نازک وقت میں آپ ﷺ کے ساتھ صرف نو جانباز صحابہ کرام ؓ رہ گئے تھے، دو مہاجرین اور سات انصار میں سے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا: کون ہے جو ان کو ہم سے دور ہٹائے گااوراس کے لیے جنت ہے (یا یہ کہ)وہ جنت میں میرا رفیق ہو گا؟ ایک انصاری آگے بڑھے اور لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ آپﷺ نے پھر یہی ارشاد فرمایا، ایک اور انصاری صحابی نے لبیک کہا اور اللہ کی راہ میں شہید ہو گئے، یہاں تک کے ساتوں کے سات انصاری صحابہؓ یکے بعد دیگرے اپنے پیارے رسولﷺ پر فدا ہو گئے۔ ان میں سے آخری جانثار عمارۃ بن زیاد بن سکن (یا باختلاف روایت زیاد بن سکن) رضی اللہ عنہ تھے جو زخموں سے چور ہو کر گرے۔ آپﷺ نے دیگر صحابہؓ سے فرمایا کہ انھیں میرے قریب لاؤ۔ پاس لائے جانے پر آپ ﷺ نے ان کا سر اپنے مبارک قدموں میں رکھ لیا، دیکھتے ہی دیکھتے انھوں نے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی اور جنت میں رفاقت رسولﷺ کا پروانہ حاصل کر لیا۔ بقول شاعر:
؂ سر بوقتِ ذبح اپنا اس کے زیر پائے ہے
یہ نصیب!اللہ اکبر!لوٹنے کی جائے ہے
حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ
اس ہنگام میں جن چند صحابہ کرام ؓنےآپ ﷺ کے گردحلقہ بنا کر جانبازی و جانثاری کانادر مظاہرہ کیا حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ بھی ان میں سے ایک تھے۔ اس موقع پرآپ رضی اللہ عنہ نے موت پر بیعت کی، جہاں ایک طرف سرور کائنات ﷺ کی طرف چلائےگئے تیروں کو روکا، وہاںدوسری جانب کفار مکہ پر مسلسل تیر برسائے۔ آپ ﷺ کے پاس سے کوئی تیر لیے گزرتا تو آپؐفرماتے کہ ان کو دو کہ یہ سہل ہیں۔ جنگ سے واپس آنے کے بعد جب آپﷺ نے اپنی تلوارکی تعریف بیان فرمائی اور دھونے کے لیےحضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے حوالے کی تو حضرت علی کرم اللہ وجہ نے بھی اسی غرض سے تلوار ان کے سپرد کرتے ہوئے تعریفی کلمات کہے، جواباً آنحضرت ﷺ نے فرمایا: اے علی! اگر آج تم نے پامردی اورثابت قدمی کے جوہر دکھائیں ہیں تو سہل بن حنیفؓ اور ابو دجانہؓبھی کسی سے پیچھے اور کم نہیں رہے۔

حضرت ابو دجاّنہ سماک بن خرشہ رضی اللہ عنہ


جنگ کے آغاز میں آنحضرت ﷺ نے حضرت ابو دجّانہ رضی اللہ عنہ کو اپنی تلوار عنایت فرمائی تھی۔ یہ کسی بھی صحابئ رسول ؐ کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔ حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ جو اس تلوار کو حاصل کرنے کے خواہاں تھے بیان کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ ابود جّانہ نے اس تلوار کا پورا پورا حق ادا کیا جس کا انھوں نے حضور ﷺ سے عہدکیا تھا۔ جب بازی پلٹی تو یہی ابودجّانہ جو چند لمحے قبل تک کفار مکہ کے نامی گرامی شہسواروں اور جنگجوؤں کوایک ایک کر کے جہنم واصل کر رہے تھے فوراہادئ عالم ﷺکی طرف پلٹے اور اپنے آپ کو ڈھال بنا لیا۔ آپ رضی اللہ عنہ کے چہرے کا رخ محبوب از جاں نبی ﷺکی جانب جبکہ پشت (کمر) حملہ آوروں کی طرف تھی، تاکہ جو بھی تیر آئے وہ ان کے بدن میں پیوست ہو اور آپ ﷺ محفوظ و مامون رہیں۔ بلاشبہ فداکاری ہو تو ایسی ہو کہ آپ رضی اللہ عنہ تیر پر تیر کھاتے چلے جاتے تھے لیکن اپنی جگہ سے نہیں ہلتےتھے مبادا کوئی تیر حضور ﷺ کو نقصان پہنچا دے۔ بعد میں دیکھا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ کے جسم کا کوئی حصہ زخموں سے خالی نہ تھا۔ مگرچونکہ یہ زخم نبئ رحمت ﷺکے دفاع میں کھائے گئے تھے تو درد و الم کا شائبہ تک نہ تھا بلکہ سب باعث سعادت و افتخار تھے۔ اسی دوران ایک مشرک شہسوار عبداللہ بن حمید بن زہیرگھوڑا بھگاتا ہوا حضور پر نور علیہ الصلاۃ و التلیمات کی جانب حملے کی نیت سے بڑھا، ساتھ میں کہتا جاتا تھا کہ ” میں زہیر کا بیٹا ہوں، مجھے بتاؤ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) کہاں ہیں؟بخدا میں انھیں قتل کر دوں گا یا پھر خود مارا جاؤں گا۔”حضرت ابودجانہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات سنی توفرمایا “اے احمق! تو انھیں رہنے دے، پہلے ان کے جانثار کے ساتھ دو دو ہاتھ کر لے”۔ یہ کہا اور آگے بڑھ کر پہلے اس کے گھوڑے کی کونچیں کاٹ ڈالیں اور پھر سر پر اس زور کا وار کیا کہ وہ وہیں ڈھیر ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ منظر دیکھ رہے تھے، زبانِ رسالتؐ دعا گو ہوئی ” اے اللہ! تو بھی ابن خرشہ (یعنی ابودجانہؓ) سے راضی ہو جا جس طرح میں اس سے راضی ہوں۔” یہ کتنا بڑا اعزاز ہے کہ شافعِ محشر صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف اس جہانِ فانی میں اپنے ایک امتی کو اپنی رضا کا پروانہ عطا کر رہے ہیں بلکہ مالک ارض و سما کے سامنے بھی اس کے ملتجی ہیں۔ آیاممکن ہے کہ حبیب کبریا ؐ دست دعا ہوں اور وہ قبول نہ ہو؟، ہرگز نہیں!

حضرت قتادۃ بن نعمان رضی اللہ عنہ


حضرت قتادۃ رضی اللہ عنہ احد کے دن کا واقعہ خود بیان کرتے ہیںکہ حضور پر نور ﷺ نے انھیں ایک کمان عطا فرمائی جس سے انھوں نے اتنے تیر چلائے کہ اس کا کنارہ ٹوٹ گیا، لیکن آپ رضی اللہ عنہ نے پھر بھی اپنی جگہ سے حرکت نہ فرمائی اور برابر رسالت مآب ﷺ کی حفاظت کی غرض سے چہرہ کفار مکہ کے سامنے کیے رکھا۔ تیروں کی بارش میں ایک تیر آپ رضی اللہ عنہ کی آنکھ میں لگا اور ڈھیلا ہاتھ میں آ گیا۔ لوگوں نے کہا اسے کاٹ دو، مگر آپ رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ سے مشورہ کرنا بہتر سمجھا اور اسے لیے ہوئے خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ حضور ﷺ نے اپنے جانثار صحابی کو اس حالت میں دیکھا تو اشکبار ہوئے اور فرمایا: اگر تم صبر کرتے ہو تو تمھارے لیے جنت ہے، اور اگر کہتے ہو کہ آنکھ کو اس کی جگہ پر رکھ کر دعا فرما دوں تو میں دعا کر دیتا ہوں۔ حضرت قتادۃ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: یا رسول اللہ ﷺ میری ایک بیوی مجھے بہت محبوب ہے، کہیں اس عیب کی وجہ سے وہ مجھ سے نفرت نہ کرنے لگے۔ آپﷺ ان کا منشاء سمجھ گئے اور آنکھ کو واپس اس کی جگہ پر رکھ کر دعا فرمائی: اے اللہ! جس طرح قتادۃ نے تیرے نبیؐ کے چہرے کی حفاظت کی ہے تو بھی اس کے چہرے کی حفاظت فرمااور اس آنکھ کو دوسری آنکھ کے مقابلے میں زیادہ خوبصورت اور تیز نظر بنا۔ دعائے رسولﷺ نے معجزہ کر دکھایا اور آنکھ بالکل ٹھیک اور صحیح ہو گئی بلکہ پہلے کی نسبت زیادہ جاذب نظراور تیز ہو گئی۔

حضرت امّ عمارہ نسیبہ بنت کعب مازنیہ رضی اللہ عنہا


عام قاعدے اور ضابطےکے مطابق خواتین اسلام عملی جہاد و قتال میں شریک نہیں ہوا کرتی تھیں۔ ان کا میدان جنگ میں آنافقط زخمیوں کو پانی پلانے اور مرہم پٹی کرنے کی غرض سے ہوتا تھا۔ تاریخ میں معدودے چند واقعات ہیں جن میں کسی خاتون نے سرفروشی کا نمونہ پیش کیا، اوربلاشبہ حضرت امّ عمارہ رضی اللہ عنہا بجا طور پر ان خواتین کی سرخیل کہلائے جانے کے لائق ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کو تاریخ میں “خاتون احد” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس دن جب مسلمانوں میں ابتری پھیلی تو آپ رضی اللہ عنہا زخمیوں کو پانی پلانے میں مصروف تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ آنحضرت ﷺ دشمن کے نرغے میں ہیںتو مشکیزہ پھینکااور تیر اور تلوار سے لیس ہو کر آپ ﷺ کے دفاع کے لیے پہنچ گئیں۔ چونکہ میدانِ جنگ میں آمد لڑنے کی غرض سے نہیں تھی تو ڈھال سے تہی دست تھیں۔ آنحضرت ﷺ نے آپ رضی اللہ عنہا کو اس طرح دادِ شجاعت دیتے دیکھا تو ایک صحابی کو حکم دیا کہ وہ اپنی ڈھال امِٗ عمارۃؓ کو دے دیں۔ ڈھال کا ملنا تھا کہ آپ رضی اللہ عنہا کی بہادری اور دلیری میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ اس نازک موقع پر حضرت امّ عمارہ نے نہ صرف آپ ﷺ کی طرف بڑھتے ہوئےحملوں کو روکا بلکہ تیرو تفنگ سے جانبازی کا بخوبی حق ادا کیا۔ابن قمیہ جو عرب کا مشہور پہلوان اورشہسوار تھا درّاتا ہوا حضور ﷺ کو (نعوذ باللہ) قتل کرنے کی نیت سے آگے بڑھا اور زور دار تلوار ماری جس سے خود کی دو کڑیاں چہرہ انور میں دھنس گئیں۔ بدبخت نے ابھی دوسراحملہ نہیں کیا تھا کہ امّ عمارہ آڑے آ گئیں اور اس پر تلوار سے وار کرنے شروع کر دیے، چونکہ ابن قمیہ دو زرہیں پہنےہوا تھا اس لیے اسےفرق نہیں پڑا، جوابا اس نے زور دار تلوار ماری جس سے آپ رضی اللہ عنہا کے کندھے میں گہرا زخم ہوا اور گڑھا پڑ گیا۔ بعد میں زخموں کا شمار کیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہا کوبارہ یا تیرہ زخم آئے تھے۔ اسی جانفروشی کے سبب حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: احد کے دن میں جدھر بھی دیکھتا، میں اپنے دائیں اور بائیں امّ عمارہ کو دفاع کرتے ہوئے پاتا۔ نیز یہ بھی فرمایا کہ احد کے دن امّ عمارہ نے فلاں فلاں سے بڑھ کر بہادری دکھائی۔ جنگ کے اختتام پر آپ رضی اللہ عنہا نے اللہ کے حبیب ﷺ سے درخواست کی کہ یا رسول اللہ! دعا فرمائیے کہ جنت میں ہمیں (خاندان کو) آپ ﷺ کی معیت نصیب ہو۔ آپﷺ نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے : یا اللہ! ان کو جنت میں میرا قرب نصیب فرما دے۔ حضرت امّ عمارہ رضی اللہ عنہا اس دعا پر اتنا خوش ہوئیں کہ کہا : اب دنیا میں کوئی بھی مصیبت آئے پروا نہیں ہے۔ واقعی جس کواس حیات فانی میں ہی حضور خاتم الانبیاءﷺ کے ابدی ساتھ کی نوید مل جائے ، اس کے لیے بھلادنیا کی مشکلات اور مصائب کیا معنی رکھیں گے!!
حضرت ابو طلحہ زید بن سہل انصاری رضی اللہ عنہ
حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ مشہور صحابی و خادم رسول صلی اللہ علیہ وسلم انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے سوتیلے والد گرامی تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا شمار ماہراور زبردست تیر اندازوں میں ہوتا تھا۔ غزوۂ احد کے دن جب دشمن نے ہادئ اکرم ﷺ پر ہجوم کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ کو اپنی ڈھال سے ڈھانک لیاتاکہ اگر کوئی تیراس طرف آئے تو آپ ﷺ کو گزند نہ پہنچے بلکہ جو بھی نقصان ہو انھیں کا ہو، وہ دشمنانِ اسلام کے تیروں کو اپنے ہاتھوں پر روک رہے تھے۔ اسی حالت میں آپ رضی اللہ نےکفار مکہ کی طرف تاک تاک کر تیر برسانے شروع کر دیے۔ ساتھ ساتھ جذب و کیف میں یہ شعر پڑھتے جاتے:
نفسی لنفسک الفداء ووجھی لوجھک الوقاء
میری جان آپ کی جان پر قربان اور میرا چہرہ آپ کے چہرے کی سپر ہو
اس دن آپ رضی اللہ عنہ کی تیر اندازی کا یہ عالم تھا کہ دویاتین کمانیںیکے بعد دیگرے آپ ؓکے ہاتھ سے ٹوٹیں۔ ایک وقت آیا کہ ترکش تیروں سے خالی ہو گیا، اس کے بعد کوئی مسلمان ادھر سے تیر لیے گزرتا تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ اے فلاں ابن فلاں اپنے تیر ابو طلحہ کےترکش میں ڈال دو، اس طرح آپ رضی اللہ عنہ برابر تیر چلاتے رہے۔ آنحضرت ﷺ یہ دیکھنے کے لیے ابو طلحہؓ کا تیرکہاں جا کر لگا ہے بار بار سرمبارک اٹھاتے تو آپ رضی اللہ عنہ فکر مندی اور بے قراری سے آپ ﷺ کے آگے آ جاتے اور عرض گدازہوتے ” اے اللہ کے نبی! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان!سر مبارک اوپر نہ اٹھائیے، مبادا دشمن کا کوئی تیر آ لگے۔ میرا سینہ آپؐ کے سینے کے لیے سپر ہے۔” دوہری شجاعت و فداکاری یعنی دفاعِ نبیﷺ میں تیروں کو ہاتھوں پر لینےاور مسلسل تیر اندازی کی جان توڑ جدوجہد کے باعث آپ رضی اللہ عنہ کا ایک ہاتھ دائمی شل ہو گیا مگر زبان سے اُف تک نہ نکلا۔ یہ جذبۂ فدویت اور جانثاری دیکھ کر رسول اللہﷺ نہایت مسرور ہوئے اور فرمایا: ” فوج میں ابو طلحہ کی آواز سو آدمیوں سے بہتر ہے۔”

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ


احد کے روز حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ جن دوسرے صاحبِ نے اپنی ماہرانہ تیر اندازی کے جوہر دکھائے اور اس کے ذریعے وارفتگئ رسولﷺ کا مظاہرہ کیا وہ جلیل القدر صحابی، عشرۂ مبشرۃ میں سے ایک حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے۔ آپ رضی اللہ ایک حیثیت سے آنحضرتﷺ کے ماموں زاد بھائی تھے، مگر چونکہ آپ رضی اللہ عنہ کا تعلق حضورﷺ کے ننھیالی گھرانے بنی زہرہ سے تھا تو جناب نبی کریم ﷺ آپؓ کو پیار سے ماموں بھی پکارتے تھے، حضرت سعد رضی اللہ عنہ اس نسبت اور خطاب پر ہمیشہ فخر محسوس کرتے تھے۔
سیر و مغازی کی روایات میں اختلاف ہے کہ جب کفارِ مکہ نے نبئ رحمت علیہ الصلاۃ و السلام پر پہلا ہلّہ بولا تو اس وقت آپ ﷺ کے گرداگرد کتنے جانثار صحابہ سر پر کفن باندھ کر لڑ رہے تھے۔ انصاری صحابہ کو ملا کر کہیں یہ تعداد سات بیان کی جاتی ہےتو کہیں نو، گیارہ اور چودہ کا ہندسہ بھی آتا ہے، مگر یہ سب روایات ایک امر پر متفق ہیں کہ مہاجرین میں سے دو صحابہ آغازِ حملہ کے وقت حضور ﷺ کے پہلو بہ پہلو سر دھڑ کی بازی لگا رہےتھے؛ یہ تھے جناب سیدنا سعد بن ابی وقاص اور سیدنا طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنھما اجمعین۔
متعدد سیرت نگاروں نےروایت کیا ہےکہ اس روز حضرت سعدرضی اللہ عنہ کی کمان سے ایک ہزار تیر برسائے گئے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کی مہارت اور قابلیت کو سامنے رکھتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ترکش سے تیر نکال نکال کر آپ ؓ کو دیتے اور چلانے کا ارشاد فرماتے، جبکہ دوسری روایت میں آتا ہے کہ جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے ترکش میں تیر ختم ہو گئے تو حضورﷺ نے اپنے ترکش کے تمام تیر آپ رضی اللہ عنہ کے سامنے بکھیر دیے اور انھیں چلانے کا حکم دیا۔ اس کے بعد دونوں روایتوں کے مطابق آپ رضی اللہ جب بھی تیر چلانے لگتےتو نبئ مہربان ﷺ کمال محبت سے فرماتے:
یَا سَعْدُ اِرْمِ فِدَاکَ اَبِیْ وَ اُمِّیْ
اے سعد! تیر چلا، میرے ماں باپ تجھ پر فدا ہوں
اللہ اللہ! آغاز مضمون میں کاملیت ایمان کی شرط بیان کی جا رہی کہ کسی امتی کا ایمان اس وقت تک کامل نہیں ہو سکتا جب تک رسول خدا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اس کے دل میں ماں باپ، اولاد، اعزہ و اقارب، دوست احباب غرض دنیا جہاں کی ہر شے سے بڑھ کر جاگزیں نہ ہو جائے، اور زبان حال یہ گواہی نہ دے رہی ہو کہ “یا رسول اللہﷺ! میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں۔”مگریہاں ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ کےنبی ﷺاپنے ایک امتی کو اس عظیم ترین شرف سے بہرہ مند فرما رہے ہیں۔ حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجہہ بیان کرتے ہیں کہ “میں نےرسول اللہﷺ کی زبان مبارک سے ما سوائے سعدؓکسی اور کے لیے فِدَاکَ اَبِیْ وَ اُمِّیکے الفاظ نہیں سنے”(دیگر دو روایات حدیث میں یہی الفاظ حضرت زبیر بن عوام اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنھما کے بارے میں بھی آئےہیں، سو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے کلام کی توجیہ یہ بنتی ہے کہ یا تو انھوں نے جناب رسول کریم ﷺ سے کسی اور کے حق میںسماعت نہیں کیے، یا پھر غزوۂ احد کے موقع پر بجز حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے کسی اور کے بارے میں ارشاد نہیں فرمائے گئے۔ گویا یہ ایسا بلند پایہ شرف ہے کہ (حواریان رسولﷺ کے علاوہ) دوسرا کوئی شخص اس میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ کا ہمسر نہیں ہے۔
مشرکین ِمکہ کے حملے اور نرغے کے دوران جن چند افراد کو سرورِ کائنات محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کو زِک پہنچانے کا موقع ملا ان میں ایک بد بخت عتبہ بنی ابی وقاص بھی تھا جو حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا بھائی تھا۔ اس نے یکے بعد دیگرے کئی پتھر آنحضرتﷺ کی جانب پھینکے، جن کے لگنے سے آپﷺ کے دندان مبارک شہید (یا زخمی) ہوئےاور نیچے کا لب مبارک خون آلود ہو گیا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ “واللہ! (اس ناپاک جسارت پر) میں جس قدر اپنے بھائی عتبہ کے قتل کا درپے اور خواہشمند ہوا، کسی اور کے قتل کا حریص نہیں ہوا”، مگر قانو ن قدرت میں یہ سعادت حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے حصے میں لکھی تھی تو وہ اس سعادت سے شرف یاب نہ ہو سکے۔

حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ


جنگ کے نازک اور کٹھن لمحات میں بیشتر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین نے اپنی اپنی ہمت و طاقت سے کئی گنا بڑھ کرمحیر العقول سرفروشی کا مظاہرہ کیا(جن میں سے چند اصحاب کا عطر بیز تذکرہ گذشتہ سطور میں گزر چکا ہے)، مگر اللہ کے ایک بندے نے جانثاری اور فداکاری کا وہ نادرۂ روزگار نمونہ پیش کیا کہ بقول علامہ اقبالؒ:
؂عقل ہے محوِ تماشالبِ بام ابھی
وہ کوئی اور نہیں بلکہ سابقون الاولون اور عشرۂ مبشرۃ میں سے ایک حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ تھے۔ حضرت عمارۃ بن زیاد بن سکن (یا زیاد بن سکن) اور ان کے ساتھی انصاری صحابہ رضی اللہ عنہم کے ضمن میں ہم ذکر کر چکے ہیں مشرکین مکہ کی پہلی یورش کے دوران پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے جوانب میں صرف نو (یا باختلاف روایت گیارہ بارہ) صحابہ کرامؓ تھے۔ آنحضرت ﷺ نے ندا لگائی کہ کون ہے جو ان کو ہم سے دفع کرےاس کے لیے جنت ہے (یا یہ کہ)اور وہ جنت میں میرا رفیق ہو گا؟ اس پر انصاری صحابہ ؓ کے ایک ایک کر کےلبیک کہنے اورجام ِشہادت نوش کرنے سے ماقبل ہر بار حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ رسالت مآبؐ میں عرض کناں ہوئے : یا رسول اللہﷺ میں!، لیکن ہر بار حضورﷺ نےفرمایا:نہیں! تم نہیں! کوئی اور۔ جب حضرت عمارۃ بن زیاد بن سکن رضی اللہ عنہ بھی زخموں سے چُور ہو کر گر پڑے، تب حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے سات (یا گیارہ) انصاری صحابہ ؓ کے بقدر تنہا مقابلہ کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ جارحیت اور دفاع کا مرقع بن گئےتھے۔ جب کفار حملے کے لیے قریب آنے لگتےتو آپ رضی اللہ عنہ اکیلے آگے بڑھ کر لڑائی لڑتے اور انھیں تتر بتر کر دیتے۔ پھر واپس لوٹتے اور آقائے دو جہاں ﷺ کو اپنی پشت پر سہارا دےکر الٹے قدموں محفوظ مقام کی طرف چل پڑتے۔ یہ آگے بڑھنے اور پیچھے ہٹنے کا عمل کئی دفعہ دہرایا گیا۔
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کی جانثاری دیوانگی کی حد کو پہنچی ہوئی تھی کہ تیروں اور تلواروں کو اپنے ہاتھوں پر لے رہے تھے جس کے باعث ایک ہاتھ مکمل ناکارہ ہو گیا اور کچھ انگلیاں بھی ہمیشہ کے لیے قربان ہو گئیں۔ امام بخاری ؒ قیس بن ابی حازمؒ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا : میں نے حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا ہاتھ دیکھا وہ بالکل شل تھا،انھوں نےجنگِ احد میں اسی ہاتھ سے حضور علیہ الصلاۃ و السلام کا دفاع کیا تھا۔ اعداء اللہ میں سے کسی نے تلوار سے وار کیا جو ہاتھ پر پڑا تو درد کی شدت سے آپ رضی اللہ عنہ کی زبان سے ٌحس حس (سی سی)ٗ کی آواز نکلی، آنحضرتﷺ نے فرمایا:”اگر تم حس حس کی بجائے بسم اللہ کہتے تو فرشتے تجھے اٹھا کر لے جاتےاور لوگ دیکھ رہے ہوتے ۔۔۔”دوسری روایت کے الفاظ میں ہے کہ “۔۔۔تو جنت میں بنا ہوا اپنا گھر یہاں دنیا میں رہتے ہوئے دیکھ لیتے۔”
جنگ کے اختتام پرجب زخموں کا شمار کیا گیا تو ایک روایت کے مطابق پینتیس یا انتالیس گہرے گھاؤ تھے۔مگر دوسری طرف حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اپنے والد ماجد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے نقل کرتی ہیں کہ : “احد کے دن جب حضرت طلحہ رضی اللہ کے زخم شمار کیے گئے تو وہ ستر سے زائد تھے۔ افضل البشر بعد الانبیاء سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ میدان کارزار کا پورا نقشہ کھینچتے ہوئے بتاتے ہیں کہ “جب جنگ کا پانسہ پلٹا تو آنحضرت ﷺ کے پاس سب سے پہلے میں لوٹ کر آیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص آپﷺ کی مدافعت میں جی جان سے لڑ رہا ہے، میں نے کہا کہ ہو نہ ہو یہ طلحہؓ ہے۔ اتنی دیر میں ابو عبیدہؓ بھی آ گئے۔ ہم حضور علیہ الصلاۃ و السلام کے پاس پہنچے تو طلحہ ؓ کوبے ہوش پایا۔ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: اپنے بھائی کی خبر لو، اس نے جنت واجب کر لی۔ ہم نے دیکھا کہ اللہ کے رسولﷺ کا اپنا چہرہ خون آلود ہے، خود کی کڑیاں رخِ انور میں دھنسی ہوئی ہیں۔ میں نے انھیں نکالنا چاہا، لیکن ابوعبیدہؓ نے ربِ ذوالجلال کا واسطہ دے کر اس سعادت کو اپنے نام کر لیا اور ہاتھوں کے بجائے دانتوں کا سہارا لیا جس کی بنا پر ان کے دو دانت شہید ہو گئے۔ رسول اللہﷺ نے ہمیں پھر طلحہؓ کی جانب متوجہ کیا۔ ہم اُدھر گئے تو ان کے جسم پر ستر سے زائد زخم پائے۔ ان کی مرہم پٹی کی گئی اور منہ پر پانی چھڑکا گیا تو ہوش میں آتے ہی پہلا سوال کیا “حضورؐ کا کیا حال ہے؟” ہم نے بتایا حضورؐ بخیریت و عافیت ہیں تو جواباً کہا “الحمد للہ! حضورؐ کے ہوتے ہوئے ہر مصیبت بے حقیقت ہے۔” اسی لیے یار غار و مزار ابوبکر رضی اللہ عنہ جب بھی غزوۂ احد کا ذکر کرتے تو فرماتے:
کان ذلک الیوم کلہ لطلحۃ
یہ دن (جنگ) کُل کاکُل طلحہ کے لیے تھا
مطلب غزوۂ احد میں نبئ اخر الزمانﷺ کی حفاظت کا اصل بیڑا تو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نے اٹھایا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ انھیں “صاحب احد” کے لقب سے پکارتے تھے۔
اسی پر بس نہیں ہوئی، بلکہ احد پہاڑ کی طرف عقب نشینی کرتے ہوئے جب سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم ابو عامر فاسق یہودی کے بنائے گئے گڑھوں میں سے ایک گڑھے میں گر گئے ، جو اس بدباطن نے مسلمانوں کو زِک پہنچانے کے لیے ہی کھدوائے تھے، تو دوہری آہنی زرہوں کے بوجھ اور زخمی حالت کے بسبب آپﷺ کو اٹھنے اور نکلنے میں دشواری ہوئی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے آنحضرت ﷺ کا ہاتھ تھاما اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ نےکمر کے گرد بازو حمائل کر کے اوپر اٹھایا، تب آپﷺبرابر کھڑے ہوسکے ۔ افضل البشر و افضل الخلائق علیہ الصلاۃ و السلام نے دوسری بار حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کو جنت کے وجوب کا پروانہ دیا۔ اسی طرح جب احد پہاڑ کے قریب پہنچ کر بلند عمودی چٹان پر چڑھنے کا مرحلہ درپیش آیا تو بھاری زرہیں اور زخموں کی وجہ سے ضعف و نقاہت چڑھائی چڑھنےمیںمانع ثابت ہوئیں۔ چنانچہ جانثارِ بارگاہ رسالت ؐ سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ بجاآورئ خدمت کے لیے ایک بار پھر پیش پیش ہوئے اور آپﷺ کے سامنے جھک کر بیٹھ گئے، حضورﷺ نے ان کی پشت پر قدم مبارک رکھا اور چٹان چڑھ گئے۔ بعد ازاں تیسری دفعہ فرمایا (ابن اسحقؒ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نقل کرتے ہیں):
اَوْجَبَ طَلْحَۃُ
طلحہ نے (اپنے لیے) جنت واجب کر لی
معلوم ہوتا ہے حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ جملہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اس حیثیت سے یکتاہیں کہ انھیں ایک ہی موقع پر سہ بارگی جنت کی بشارت سے نوازا گیا۔ نیز اس جذبۂ عشق و مستی پر خاتم الانبیاء و الرسل صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد اقوال منقول ہیں۔
آپﷺ نے فرمایا: “جو شخص زمین پر چلتے پھرتے زندہ شہید کو دیکھنا چاہے، وہ طلحہ بن عبیداللہ کو دیکھ لے۔”
یہ بھی فرمایا: “جس نے دنیا میں چلتے پھرتے جنتی کو دیکھنا ہو، وہ طلحہ کو دیکھ لے۔”
فرمان نبویﷺ ہے: “طلحہ ان لوگوں میں سے ہیں جو قربانی کا حق ادا کر چکے ہیں۔”
حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کی فیاضی اور سخاوت مشہور و معروف تھی۔ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں وافر حصہ رہتا تھا۔ خاص غزوۂ احد کے موقع پربیش بہا انفاق فی سبیل اللہ کرنے پر پر دربار رسالتؐ سے “طَلْحَۃُ الْخَیْر” کا خطاب عنایت ہوا۔

آخری بات ۔ ۔ ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے پردہ فرما چکے، سو جسد اطہر کی حفاظت اور مدافعت کی اس طور ضرورت نہیں رہی جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین نے احد، حنین اور دوسری غزوات کے موقع پر پیش کی۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ فی زمانہ مغرب سے گاہے بگاہے عصمت و ناموس رسالت ﷺ پر رقیق اور اوچھے حملے ہوتے رہتے ہیں۔ ان کا کامل اور مکمل سدِّ باب ضروری ہے۔ اس کےلیے ہمیں صحابہ کرامؓ کی سی محبت، حمیت، غیرت، ہوشمندی اور دانشمندی درکار ہے۔ اللہ تبار ک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم مسلمانوں کو اوصاف و خصائص صحابہ ؓسے مزین و منور فرمائے تاکہ رہتی دنیا تک کوئی ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کی طرف میلی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ سکے۔۔۔ آمین یا رب العالمین!

صلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ ومن تبعا احسان الی یوم الدین۔۔۔!!!!

حوالہ جات:
1) سیرت المصطفی جلد دوم از مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ
2) ضیاء النبی جلد سوم از پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمہ اللہ
3) سیر الصحابہ ؓ جلد دوم، سوم و ششم
4) خیر البشر ﷺ کے چالیس جانثار رضی اللہ تعالی عنہم از طالب الہاشمیؒ
5) سرور کائناتﷺ کے پچاس صحابہ رضوان اللہ تعالی اجمعین از طالب الہاشمیؒ
6) تیس پروانے شمع ِ رسالت کے ﷺ از طالب الہاشمی
7) تذکار صحابیات رضی اللہ تعالی عنہن از طالب الہاشمی
8) سیرت حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ از طالب الہاشمی

Leave a Comment