چاندی (ڈاکٹر طارق ریاض)

وہ خاصی دیر سے گلی گلی صدا لگا رہا تھا کہ صرف ایک الیکٹران دے دو اور بدلے میں چاندی لے لو۔ مگر ابھی تک کوئی بھی نہ مل سکا تھا جو اُسے صرف ایک منفی چارج والا ذرہ الیکٹران (Electron) دے دیتا۔ آخر گلا پھاڑ پھاڑ کر وہ تھک گیااور سستانے کے لیے ایک برگد کے درخت تلے بیٹھ گیا۔ حضرت عیسیٰ کی آمد سے پہلے کا دور تھا۔ سائنس و ٹیکنالوجی ابتدائی دور میں تھی۔ مصر کا بازار تھا اور یہ تاجر تھا جو اپنے سائنس دان دوستوں کے ساتھ رہ رہ کر اُن کی صحبت کی وجہ سے خود اچھا خاصا سائنسی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص بن چکا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب چاندی کی قیمت سونے (Gold) سے زیادہ تھی۔ اسی لیے قدیم دور میں زیادہ تر علاقوں کی کرنسی چاندی کے سکوں (Coins) پر مشتمل ہوتی تھی۔ تاجر نے ایک مرکزہ (Nucleus) میں کئی الیکٹران جمع کر لیے تھے۔ اُسے چاندی تیار کرنے لیے 47 الیکٹران(Electrons) درکار تھے۔ مرکزے کے باہر کئی دائرے (Shells) تھے، جن میں الیکٹران گردش کرتے ہیں۔ پہلے شیل میں 2، دوسرے میں 8، تیسرے میں 18،چوتھے میں 18اور آخری شیل کے لیے صرف ایک الیکٹران کم تھا۔ کئی مردوں اور عورتوں نے تھوڑے تھوڑے الیکٹرانز (Electrons) اُسے دے دیے تھے، جنہیں شیلز(Shells) میں رکھ کر وہ چاندی کے الیکٹرانز پورے کر رہا تھا۔ صرف ایک الیکٹران پر آ کر بات رُک گئی تھی۔
یہ بازار تھا۔ ایک ایسے شخص کا گزر ہوا جسے لاطینی (Latin) زبان آتی تھی۔ اُس کے ہاتھ میں مرکزہ (Nucleus) دیکھا تو بولا:
”Argentum“۔ تاجر کے لیے یہ لفظ نیا تھا، اِس لیے اُس نے پوچھا:
”بھائی! کیا مطلب؟ میں سمجھا نہیں!“
وہ شخص مسکرا کر کہنے لگا:
”تم چاندی تیار کر رہے ہو۔ لاطینی زبان میں چاندی کو Argentum کہتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے سفید۔“ یہ کہہ کر وہ شخص تو چلا گیا۔ تاجر کو یہ خیال آیا کہ اس دھات (Metal)کی علامت ”Ag“ ہونی چاہیے۔ لو جی، وہ دن اور آج کا دن….چاندی کی علامت (Symbol)”Ag“ ہے۔ یہ دھات نرم، سفید ہونے کے ساتھ ساتھ بجلی اور حرارت کا بہترین کنڈکٹر (Conductor) بھی ہے۔ اب تو تاجر کی بے قراری اور بڑھ گئی تھی۔ آخر ایک خاتون وہاں سے گزری۔ اُس سے تاجر کی حالت دیکھی نہ گئی۔
”بھائی! ہمارے علاقے سے جتنے الیکٹرانز ملنے تھے، مل گئے۔ اب تم شمال کی طرف چلے جاؤ۔ وہاں پہاڑی علاقے میں کسی نہ کسی سے کوئی نہ کوئی ذرّہ (Particle) مل جائے گا۔“
اُس کی بات میں وزن تھا۔ چناں چہ تاجر نے اپنا سامان اُٹھایااور وہاں سے ہجرت کر کے پہاڑوں کے وسط میں آباد ایک سرسبز وادی میں آ پہنچا۔ گھوڑا تھک گیا تھا۔ مسلسل سفر کے بعد اُسے بھی آرام کی ضرورت تھی۔ لہٰذا رات ہونے سے پہلے پہلے وہ ایک سرائے خانہ میں پہنچ گیا۔ رات بسر کرنے کے لیے یہ ایک محفوظ مقام تھا۔ روٹی پانی کے ساتھ ساتھ جان و مال کا تحفظ بھی میسر تھا۔ اُس نے گھوڑے کو صحن میں باندھا۔ اُس کے کھانے پینے کا بندو بست کرنے کے بعد سستانے کے لیے بستر پر دراز ہو گیا۔ تھکن کی وجہ سے وہ رات کا کھانا کھائے بغیر نیند کی وادی میں اُتر گیا۔ صبح مُرغ نے بانگ دی تو معلوم ہوا کہ اگلا دِن چڑھنے کو ہے۔
ناشتے سے فارغ ہو کر بازار کا رُخ کیا تو قسمت مہربان ہو گئی۔ جلد اُسے مرکزہ کے شیلز(Shells)میں رکھنے کے لیے آخری الیکٹران بھی مل گیا۔ اب ترتیب یوں تھی کہ نیوکلیئس یا مرکزہ کے باہر پانچ شیلز (Shells) تھے۔ جن میں سب سے پہلے 2، پھر 8،اُس کے بعد 18، پھر 18اور آخر میں وہ ایک الیکٹران موجود تھا جسے بڑی تگ و دو کے بعد وہ حاصل کر سکا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر بازار میں رش لگ گیا۔ چاندی کی بطور عُنصر یا ایلیمنٹ (Element) حیثیت برقرار رکھنا مشکل ہو رہا تھا۔ وہ چلّایا:
”ہے کوئی 47مثبت چارج والے ذرات پروٹانز (Protons) دے دے تا کہ چاندی تیار ہو سکے۔“
اعلان سنتے ہی کئی منچلے آ دھمکے۔
”چاندی بنانے نکلے ہو تو پھر گھبرانا کیسا؟ یہ لو ہم دیتے ہیں۔“
بس پھر کیا تھا، دیکھتے دیکھتے 47پازیٹو چارج والے ذرات بھی اکٹھے ہو گئے۔ اُس نے یہ 47پروٹانز نیوکلیئس میں رکھ دیے۔ پہلی بار لوگوں کو محسوس ہوا کہ وہ واقعی کچھ کرنے والا ہے۔ وہ خاصی دیر کچھ جوڑ توڑ کرتا رہا لیکن ابھی تک چاندی کی سفیدی آنکھوں کے سامنے نہ آ سکی۔ حالاں کہ ابھی خاصا دن باقی تھا، لیکن 47نیگیٹو اور 47پازیٹو ذرات سنبھالتے سنبھالتے وہ تھک گیا۔ اُس نے سب کچھ اُٹھایا اور یہ اعلان کر کے سرائے خانے کی راہ لی کہ چاندی کا ایٹم مکمل کرنے کے لیے ابھی 61تعدیلی ذرات یا نیوٹرانز (Neutrons) کی بھی ضرورت ہے۔ اُس کے بغیر چاندی کو قائم رکھنا ممکن نہ ہو گا۔ اُس کے جانے کے بعد لوگ منہ بسورتے اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔
رات کے وقت جب لوگ اپنے اپنے گھروں میں آرام کر رہے تھے۔ عین اُسی وقت کئی ایسے گھرانے بھی تھے جو اپنی اپنی بیگمات سے چاندی کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔ کسی جوڑے کا خیال تھا کہ تاجر دوسرے علاقے سے آیا ہے، ضرور کوئی شعبدہ بازی سے ٹھگ کر بھاگ جائے گا۔ کہیں پہ خواتین کو یقین تھا کہ تاجر چاندی بنانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ کسی گھر میں میاں بیوی میں اختلاف رائے تھا۔ کبھی ہاں اور کبھی ناں کی کیفیت تھی۔ خیر یوں علاقے کے لوگوں نے بحث و مباحثہ کرتے رات گزار لی تھی۔ اُدھر تاجر کی آنکھوں سے نیند کوسوں دُور تھی۔ اُسے اپنے سائنس دان دوست کی باتیں یاد آ رہی تھیں جو وہ چاندی کے حوالے سے کرتا تھا۔ اُن میں سے ایک بات تو یہ تھی کہ سب سے پہلے ترکی کے لوگوں نے چاندی کی کان کنی شروع کی تھی۔ کبھی اُسے یاد آتا تھا کہ اس دھات کا نقطہ پگھلاؤ (Melting Point) 961.7سینٹی گریڈ ہے۔ انہی خیالوں میں گم تاجر نیند کی وای میں اُتر گیا۔ سونے کے باوجود اُس کے دماغ میں سوائے چاندی کے کچھ اور نہ تھا۔ نیند میں بھی اُس کے کانوں میں آوازیں آ رہی تھیں کہ چاندی ہوا میں موجود آکسیجن کے ساتھ عمل (Reaction) نہیں کرتی۔ چوں کہ اس کے آخری شیل (Shell) میں ایک الیکٹران ہے۔ اسی لیے چاندی آزاد حالت کی بجائے کسی مرکب (Compound) کی شکل میں ملتی ہے۔ بس شب یوں ہی گزر گئی۔
آج موسم خاصا خوش گوار تھا۔ ٹھنڈی ٹھنڈی بادِ صبا نے طبیعت میں عجیب سا سُرور پیدا کر رکھا تھا۔ وہ مرکزہ، الیکٹران اور پروٹان لے کر سرائے سے باہر نکلا۔ اس امید پر کہ آج 61نیوٹرونز مل گئے تو بس ہر طرف چاندی ہی چاندی ہو گی۔ لیکن یہ منظر دیکھ کر وہ ہکا بکا رہ گیا کہ سرائے کے باہر آج مرد و زن کا اجتماع تھا۔ تمام خواتین کے ساتھ میں اپنی اپنی حیثیت کے مطابق مثبت و منفی چارجز سے مبرّا تعدیلی یا نیوٹرل ذرات موجود تھے۔ رفتہ رفتہ تاجر کے سامنے نیوٹرونز کا ڈھیر لگ گیا۔ اُس نے ہمت کی اور مرکزے میں ایک ایک کر کے 61نیوٹرون رکھ لیے۔ اب صورت حال یوں تھی کہ نیوکلیئس یا مرکزہ کے باہر 47الیکٹران گھوم رہے تھے۔ مرکزے کے اندر 47پروٹان اور 61نیوٹران موجود تھے۔ چاندی چوں کہ مرکب کی صورت میں ملتی ہے۔لہٰذا اُس نے آکسیجن، فلورین، سلفر، ہائیڈروجن کے ساتھ یاری کر کے کوئی نہ کوئی کمپاؤنڈ (Compound)بنا ڈالا۔ لوگوں کی آنکھوں کے سامنے چاندی کا ڈھیر لگا تھا۔ فضا تالیوں سے گونج رہی تھی۔ سرائے کے مالک نے اُسے اپنے کندھوں پہ اُٹھا لیا تھا۔ کیوں کہ وہ اُس کا مہمان تھا اور اس کامیابی سے اُس کا سرائے خانہ اور کامیابی سے چلنا تھا۔ لوگوں نے جیبوں، ہاتھوں اور تھیلوں میں چاندی بھر لی اور خوشی خوشی گھروں کو لوٹ گئے۔ علاقے میں کوئی مفلس نہ بچا تھا۔
چاندی کے سکے بنے، زیورات بنے۔ چوں کہ عورتوں اور مردوں نے مل کر یہ کارنامہ انجام دیا تھا۔ اس لیے دونوں کے پاس چاندی کے زیورات تھے۔ کچھ لوگ چاندی کے محلول سے زخموں کو دھو رہے تھے۔ کچھ دکان دار چاندی کے اوراق سے مٹھائیوں کو سجا رہے تھے۔ کسی کے دانتوں سے چاندی کا مصنوعی دانت جھانک رہا تھا۔ ہر طرف چاندی کا دور تھا۔
٭٭٭

Leave a Comment