سوال:کیا یہ سچ ہے کہ محمد حسین آزاد مجرد اشیا یا تصورات کی تجسیم کر کے انھیں زندہ کردار بنا دیتے ہیں؟

جواب: محمد حسین آزاد:
آزاد کی انشاء پردازی اُردو میں ایک وقیع مثال اور برتر کا درجہ رکھتی ہے۔ اُن کا نثر لکھنے کا اپنا ایک انداز ہے۔ ایک جدا طریقہ اور علیحدہ سلیقہ ہے۔ جیسا وہ لکھتے ہیں، بس وہی لکھ سکتے ہیں۔
آزاد کی شخصیت اور اُسلوب:
آزاد کی پوری پوری شخصیت اپنی تمام تر تفصیلات کے ساتھ اُن کی نثر میں موجود ہے۔ جیسے وہ خود ہیں، ویسی ہی نثر لکھتے ہیں۔ گویا آزاد کا اُسلوب دراصل اُن کی شخصیت کا آئینہ دار ہے۔ آزاد طبیعت کے پرخلوص، سادہ اور ہمدرد انسان تھے۔
جنگ آزادی کے بعد:
جنگ آزادی 1857ء کی صورت میں وہ سانحہ عظیم رونما ہوا، جس نے برصغیر پاک و ہند میں ملتِ اسلامیہ کے اقتدار کی رہی سہی باقیات بھی مٹا دیں۔ ان حالات میں سرسیّد احمد خاں کو عظمت رفتہ کے تصور سے دست کش ہو کر تمام تر توجہ حال کی جانب مرکوز کرنا پڑی۔ ان کی دوربین نگاہوں نے بھانپ لیا تھاکہ اب قوم کی ڈگمگاتی ہوئی کشتی کو سہارا دینے کے لیے ماضی کا راگ الاپنے کی بجائے تہذیبِ حاضر کی خوشہ چینی ضروری ہے۔ صورت ِ حال کے پیشِ نظر سر سیّد احمد خاں نے مصلح کے طور پر معاشرتی تعمیر کا بیڑہ اٹھایا۔ اس مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے اپنی تحریک کی فعالیت کو بروئے کار لاتے ہوئے شخصی فضائل کو اہمیت دی۔ سر سیّد نظریے کے مطابق شخصی فضائل میں سے بھی وہ فضائل زیادہ قابل ِ قدر ہیں کہ جن میں فرد اپنی بجائے معاشرے کے دیگر افراد کی فلاح و بہبود کے لیے سر گرمِ عمل ثابت ہو۔لہٰذا سرسیّد نے اپنی تحریک کی فعالیت اور علوم کے ذریعے شعور کے حصول کی طرف توجہ دی۔
بقول ڈاکٹر انور سدید:
”عہدِ سرسیّد کے نثر نگاروں نے اردو نثر کا تضع دور کرنے اور اسیآرائشی اسلوب سے نجات دلانے کی جو کوشش کی، اس کی ایک صورت انشا نگاری کی صورت میں بھی سامنے آئی۔ شبلی، آزاد، حالی، نذیر احمد اور میر کارواں سرسیّد نے نہ صرف انشا کے لیے اسالیب وضع کیے بلکہ انگریزی زبان کے انشا پردازوں کے خیالات سے چراغ شوق بھی روشن کیا۔“
مغرب،سرسیّدکے لیے ایک سامراجی طاقت ہونے کے ساتھ ساتھ دراصل ایک تہذیبی اقتدار اور استحصال کی بھی علامت تھا۔ آزادی کے حصول کے لیے اس نوآبادیاتی و استحصالی اقتدار سے چھٹکارے کا واحد راستہ تعلیمی و اخلاقی نشوونما تھی۔ سر سیّد احمد خاں زمانے کے رمز شناس ثابت ہوئے۔ لہٰذا نئے آقا ؤں سے آزادی کے حصول کے لیے ضروری تھا کہ وہ مفاہمتی رویے کی آڑ لیتے کیوں کہ حال اور مستقبل کو مدِنظر رکھتے ہوئے ماضی، حال اور مستقبل کے تینوں دائروں کو متوازن کرنا ان کے پیشِ نظر تھا۔ سر سیّد نے مسلمانوں کو ان کے ماضی کی غلطیوں کاسدا خمیازہ بھگتنے کی بجائے اپنے حال اور مستقبل کے زاویوں کو سدھارنے کے لیے عملی زندگی میں ایک جہدِ مسلسل کا پابند بنانے کے لیے جدوجہد کی۔ محمد حسین آزاد نے گو کہ سر سیّد احمد خاں کے نظریات و تحریک کی باقاعدہ تقلید تو نہیں کی مگر پیروی میں انشا پردازی کو اپنے رنگ و مزاج کی مناسبت سے اس طرح رواج دیا کہ اس سے امید کی وہ کرن پھوٹی جس نے مستقبل کی مایوسی سے بچایا بھی اور محنت کی طرف رغبت بھی دلائی۔ یہ بجا ہے کہ برطانوی سامراج سے مایوس و متنفر مسلمانوں کو اخلاقی و مذہبی ہر دو طرفہ سہارا ا و رہنمائی درکار تھے لہٰذا سر سیّد احمد خاں نے اپنے ادبی کارواں کے ذریعے اس کارِ خیر کی انجام دہی کا بیڑہ اٹھایا۔ بقول ڈاکٹر انور سدید:
”شبلی، آزاد، حالی، نذیر احمد اور میرِ کارواں سرسیّد نے نہ صرف انشا کے نئے اسالیب وضع کیے بلکہ انگریزی زبان کے انشا پردازوں کے خیالات سے چراغِ شوق بھی روشن کیا۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ایڈیسن، اسٹیل، جانسن اور مل سے خوشہ چینی کر کے آزاد اور سرسیّد نے جو چراغ جلایا تھا اس کی روشنی دور دور تک پھیلتی گئی اور ان ادبا کی تخلیقی نثر نے ہی انشائی ادب کا روپ اختیار کر لیا۔
تدبیرنامہ:
”نیرنگِ خیال“کے مضامین نوآبادیاتی نظامِ حکومت کے شکنجے سے نجات کے لیے حقیقت میں وہ تدبیر نامہ سمجھا جا سکتا ہے کہ جس سے ہندوستانی مسلمان تعلیم اور محنت کے بل بوتے پر اپنی دنیا آپ پیدا کر سکتے تھے۔ ایسے اخلاقی و تربیتی مضامین لکھنے کا رجحان اس لیے بھی پرورش پا گیا کیونکہ یہ سرزمینِ ہندوستان میں مسلمان قوم کے سیاسی، معاشی و معاشرتی استحصال کا دور تھا۔ اس سیاسی، سماجی و معاشی استحصال میں ہندوستانی مسلمانوں کا اپنامنفی کردار بھی شامل تھا۔ صورتحال کچھ یْوں بھی مخدوش تھی کہ جن کے حالات و وسائل قدرے بہتر تھے وہ بھی سائنس، آرٹ، معیشت و سیاست میں اپنی نفسی توانائیاں اور طبعی وسائل صرف کرنے کو تیار نہ تھے بلکہ اکثریت تو ایسے علم کے حصول کو بدعت اور انگریز کی مزید غلامی متصّور کیے ہوئے تھی۔ سر سیّد جیسے دور اندیش مصلح نے اسے اپنی دوربیں نگاہ سے جان لیا تھا کہ نو آبادیاتی نظام کے طاقتور ریلے کا مقابلہ جواباً طاقت کا زور نہیں بلکہ ذہانت و فطانت کے حربے میں پنہاں ہے۔ تو ہم پرستی، جہالت اور سماجی بے راہ روی کی سیاہ راتوں میں امیدِ صبح کی خواہش و بیداری کا مثبت عمل انشائی مضامین کی صورت سر سیّد تحریک کے تقاضوں سے میل کھاتا حالات کے عین مطابق ثابت ہوا۔ یہ وہ دور تھا کہ جب اصلاحی خیالات کی شدت ملا و ادیب دونوں کی تقریرو تحریر کا خاصہ تھی۔محمد حسین آزاد نے اپنے نظریات کو ایسے تقلیدی عمل سے بچایا۔ آزاد کی انشا پردازی نظری وعملی حقائق کی غماز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ”نیرنگِ خیال“کے زیادہ تر مضامین کی عمومی فضا مجردپیکروں سے جن مجسموں (concrete) کی تراش خراش پر بحث کرتی ہے، وہ سب سر سیّد احمد خاں کے بطور میرِ کارواں شخصیت کو مجسّم بنانے اور نو آبادیاتی نظام سے نجات کا اخلاقی درس و سبق ہے۔ یہ مضامین ہندوستانی مسلمان میں حبِ وطن کے جذبات، اخلاقیات کے اصول و قاعدے نئے سرے سے ترتیب دینے کا باعث بنتے ہیں۔ محمد حسین آزاد کے انشائیہ کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے مسلمانوں میں ماضی کی شاندار روایات کی جدید تناظر میں بازیافت کا شعور بھی بیدار کیا ہے۔
نیرنگ کی تصنیف:
”نیرنگِ خیال“ دو حصوں پر مشتمل 1880ء میں تصنیف ہوئی۔ اس میں کل تیرہ (13) مضامین ہیں۔ ”آغازِ آفرینش میں باغِ عالم کا کیا رنگ تھا اور رفتہ رفتہ کیا ہو گیا“ کے مضمون سے شروع ہونے والا تمثیلی انشائیہ کا شاہکار اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے آخری مضمون ”سیر ِ عدم“ تک آزاد نے نہ صرف اپنے خیال سے سحر انگیزی کا کام لیا ہے بلکہ ”نیرنگِ خیال“کی نثر رنگین بیانی کا ایک دل فریب مرقع ہے۔ جس میں اخلاقی اور تمدنی اصلاح کے پہلوؤں کو بھی مد نظر رکھتے ہوئے محمد حسین آزاد نے سرسیّد کی مقصدیدیت کی مشعل جلائے رکھی۔ ”نیرنگِ خیال“کے مضامین کی وسعت ِ خیا ل اور بلند پرواز فکر قابلِ ستائش ہے۔ آزاد نے پہلے مضمون ”آغاز آفرینش میں باغِ عالم کا کیا رنگ تھا اور رفتہ رفتہ کیا ہو گیا“ میں ہندوستانی مسلمانوں کے ماضی، حال اور مستقبل کا جو شاندار نقشہ کھینچا ہے وہ قابلِ دید ہے۔ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد قاری اس نتیجے پر پہنچ جاتا ہے کہ آزاد نے اس عہد کے تقاضوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں کی پستی اور اس کے علاج کی بطور معالج نشاندہی کی ہے۔ برطانوی سامراج کی نوآبادی بننے کی بجائے معاشرتی اصلاحات کی طرف استعارا تی،تشبیہاتی، تلمیحاتی و علامتی پیراے میں اشارہ کیا ہے جس سے محسوس کیا جاسکتا ہے کہ محنت پسند خرد مند یقینا ً سر سیّد احمد خاں کی ذات ہی مراد ہے جو اپنی قوم میں سیاسی و سماجی شعور کی بیداری کے لیے کوشاں رہتا ہے اور قوم کو محنت کی عظمت کا درس بھی دیتا ہے۔ ظاہر ہے کہ محمد حسین آزاد کے پیشِ نظر تمثیلی پیرائے میں سر سیّد تحریک کی مقصدیت کوسراہنے کا عمل بھی کارفرما تھا۔بقول پروفیسر سحر انصاری ”آزاد کی خوبء نگارش یہ ہے کہ انہوں نے تمثیلی مرقعوں میں بات بین السطور بھی کہی ہے اور ذیلی سرگرمیوں کے ذریعے مقصدیت کو بھی اجاگر کر دیا ہے۔“
انشا پردازی کی عمدہ مثال:
یہ بجا ہے کہ ”نیرنگِ خیال“کے تمام مضامین مبنی بر عصری تقاضا تھے اور سماجی تقاضوں سے ہم آہنگی کو مدِنظر رکھنا بھی سر سیّد احمد خاں کی اولیات میں سے تھا۔ ”نیرنگِ خیال“کو حساس معاشرے کو نو آبادیتی نظام کی شر انگیزیوں سے بچاؤکے لیے عملی و اخلاقی تدابیر بھی کہا سکتا ہے بقول فرزانہ سیّد ”ان کا مجموعہ مضامین نیرنگ خیال اپنے اندر پوری پوری علمی، ادبی، تحقیقی اور تنقیدی توانائیوں لیے ہوئے ہے۔ ”نیرنگِ خیال“کے مضامین انیسویں صدی کے ربع ثالث کے بدلتے ہوئے سیاسی و سماجی نیز معاشی منظر نامے کے عکاس ہیں۔ مضامین کے عنوانات اسمِ بامسمیٰ ہیں اور ہندوستانی معاشرت کے تمام اوہام و خدشات کے پر آشوب دور کے ترجمان بھی ہیں۔ بھلے یہ رنگارنگ مضامین کا مرقع محمد حسین آزاد کی طبع زاد تصنیف نہ تھے بلکہ انگریزی کے بعض مشہور مضمون نگاران کے مضامین سے اخذ و ترجمہ تھے۔ دوسری طرف یہ بھی ایک مسّلمہ حقیقت ہے کہ آزاد نے انہیں انگریزی زبان سے اردو کے ادبی قالب میں ڈھال کر اْردو انشا پردازوں کے لیے مثال قائم کر دی۔ڈاکٹر انور سدید اس ضمن میں یوں رقم طراز ہوتے ہیں:
”محمد حسین آزاد نے بھی زیادہ تر انگریزی مضامین ہی سے استفادہ کیا لیکن انہوں نے اپنی مشرقیت کو بہرحال قائم رکھنے کی کوشش کی۔ گلشن امید کی بہار، سچ اور جھوٹ کا رزم نامہ، سیر زندگی، علوم کی بدنصیبی اور خوش طبعی جیسے مضامین میں آزاد نے اپنی شگفتہ انشاء سے خوبصورت لفظی مرقعے بنائے ہیں اور انشا نگاری میں اپنی انفرادیت کا پختہ نقش قائم کیا۔“
مجسم حقیقتوں کی نقاب کشائی:
آزاد نے ”نیرنگِ خیال“کی نیرنگیوں پر گو کہ مجردو تمثیلی فضا غالب ہے مگر اسی رنگ کے ذریعے وہ مجسّم حقیقتوں کی بھی نقاب کشائی یوں کرتے ہیں کہ نو آبادیاتی نظام کی دین اخلاقی، معاشی و سیاسی نیز سماجی بحران کی کئی سپہ کاریوں کا نقشہ تخّیل کی آنکھ سے دیکھا جا سکتا ہے ”آغازِ آفرینش میں باغِ عالم کا کیا رنگ تھا اور رفتہ رفتہ کیا ہو گیا“ کا آغاز ہی ہمیں مغل حکمرانوں کے زریں تا تا ریک دور کا مفصّل حال بیان کرتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ کیجییے:
”سیر کرنے والے گلشن حال کے اور دوربین لگانے والے ماضی اور استقبال کے روایت کرتے ہیں کہ جب زمانہ کے پیراہن پر گناہ کا داغ نہ لگا تھا اور دنیا کا دامن بدی کے غبار سے پاک تھا تو تمام اولادِ آدم مسّرتِ عام اور بے فکریِ مدام کے عالم میں بسر کرتے تھے۔ ملک، ملک فراغ تھا اور خسرو ِ آرام رحمدل فرشتہ مقام گویا ان کا بادشاہ تھا، وہ نہ رعیت سے خدمت چاہتا تھا نہ کسی سے خراج باج مانگتا تھا۔“
اس انشائیہ کا رنگ دھیرے دھیرے مجّرد کو مجسم بناتے ہوئے ہندوستانی عوام کے بدلتے ہوئے روّیوں اور مزاجوں کی اس منفی تبدیلی کی بات کرتا ہے کہ جو نو آبادیات کے ایجنڈے میں شامل تھا۔ اقتباس ملاحظہ کیجیے۔
”دیکھو انسان کی نیت میں فرق آتا ہے اور کیا جلد اس کی سزا پاتا ہے۔ اتفاقاًایک میدان وسیع میں تختہ پھولوں کو کھلا کہ اس سے عالم بہک گیا مگر بو اِس کی گرم اور تیز تھی تاثیر یہ ہوئی کہ لوگوں کی طبیعتیں بدل گئیں۔“
الفاظ و مرکبات کا اعلیٰ شاعرانہ چناؤ:
ایسٹ انڈیا کمپنی کا قیام، ہندوستانی حکمرانوں کی سہل پسندی کا انجام اور بالآخر نو آبادیاتی نظام جبر و قہر کے استحصالی ہتھکنڈوں کی مکمل داستان پہلے انشائیہ میں ہی رقم ہے۔ اس ضمن میں فریب کے جاسوس، سینہ زوری کے شیاطِین، غارت، تاراج، لوٹ مار جیسی رذالتوں کی آمد اور انسانی روّیوں و مزاجوں کی منفیت یعنی غرور، خود پسندی اور حسد کی صورت میں ڈھال کر آزاد نے اس دور کے برطانوی سامراج کے طریقہ واردات کو ہی صرف بیان نہیں کیا بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کی علمی، ادبی اور تعلیمی میدان میں انتہائی زبوں حالی کو بھی مجسّم پیش کر دیا ہے۔ ”نیرنگِ خیال“کا یہ پہلا مضمون باقی مضامین پر فوقیت لے جاتا ہے کہ جب آزاد ماضی، حال اور مستقبل کے تین دائروں کو کھینچتے ہوئے الفاظ پر مکمل عبور اور قدرت بیان کی اچھوتی تاثریت سے مضمون نظم کر جاتے ہیں۔ نثر میں الفاظ و مرّکبات کا اعلیٰ شاعرانہ چناؤآزاد کے جداگانہ اسلوب و شعور کا غماز ہے۔ بقول ڈاکٹر انور سدید:
”لفظ وہ جسم ہے جسے خیال کی روح تحرک اور تازگی عطا کر تی ہے۔ ادیب کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ تخلیقی ساحری سے لفظ کی مرمریں مورتیوں میں زندگی کا افسوں پھونک دے۔ آزاد نے اس تخلیقی ساحری کے ذریعے صحیح مقام پر موزوں الفاظ کے استعمال کو بڑے سلیقے سے یوں برتا ہے کہ ”نیرنگِ خیال“ کی مکمل فضا پر ”محنت پسند خرد مند“ کا کردار سرسیّد احمد خان کے رنگ روپ کو اجاگر کرتا ہے۔ یوں مجّرد سے مجسّم جیسے جاندار اُسلوب کو اسلوبیاتی رعنائیوں سے پیش کر کے آزاد نے عظمتِ الفاظ کو معیار قائم کیا ہے۔ اسی اسلوب کی اچھوتی معنویت کو وفا یزداں منش یوں بیان کرتی ہیں کہ ”آزاد ہر تلمیح کے پس منظر سے آشنا ہیں اور اس کا سہارا لے کر اپنے نصائح اور پند کو بہترین تمثیل نگاری سے دل و جان میں سمو دیتے ہیں۔“
”محنت پسند خرد مند“ کا کردار یعنی سرسیّد احمد خاں اپنی ذات میں ایک تحریک تھے۔ ان کو بطور مجّدد پیش قدمی کرتے دیکھ کر قوم نے فوراًلبیک تو نہیں کیا مگر راس دشت کی سیاحی میں عمر گزارنے کے بعد بالآخر سرسیّد احمد خاں کے رویے قوم کو رویہ بننے لگا۔ علامہ شبلی نعمانی نے مجّدد یا ر یفارمر کے لیے جو شرائط بیان کی ہیں۔ لگتا ہے کہ وہ سرسیّد احمد خاں کو دیکھتے ہوئے قائم کی گئی ہیں:
۱۔مذہب، علم یا سیاست میں کوئی مفید انقلاب برپا کرے۔
۲۔ جو خیال اس کے دل میں آیا ہو، کسی کی تقلید سے نہ آیا نہ ہو بلکہ اجتہادی ہو۔
۳۔ جسمانی مصیبتیں اٹھائی، جان پر کھیلا ہو، سرفروشی کی ہو۔
عظیم مصلح:
سرسیّد احمد خاں وہ عظیم مصلح ہیں کہ جنہوں نے علم اور سیاست میں مفید انقلاب برپا کیا اور اپنے تعلیمی و سیاسی نظریات کی ترویج کے لیے جسمانی اذیتیں بھی اٹھائیں مگر جہاں تک تقلید کی بات ہے تو اس ضمن میں بقول ڈاکٹر محمد اشرف:
”مغربی تہذیب، انگریزی تعلیم، پارلیمنٹری طرزِ حکومت، اصلاح معاشرت، مذہبی برلزم، عقلیت پسندی، اخبار نویسی، حتی کہ سادہ طرزِ تحریر شاید ہی کوئی ایسا عقیدہ ہو جس میں سرسیّد، راجہ رام موہن رائے کے قدم بہ قدم نہ چلے ہوں۔ سرسیّد نے راجہ رام موہن رائے کی طرح نئے علوم کے لیے ذہن کی کھڑکیاں کھلی رکھیں اور برہمو سماج کے انداز میں علی گڑھ تحریک چلائی تو اس کی کامیابی کے لیے سکول، کالج، انجمنیں اور اخبارات جاری کیے اور حکومت سے براہِ راست تصادم میں قوت ضائع کرنے کی بجائے اسے تعمیر ی مقاصد میں صرف کیا۔“
علامہ شبلی نعمانی اور ڈاکٹر محمد اشرف کی آراء کو مد نظر رکھتے ہوئے سرسیّد احمد خاں کی شخصیت کا واضح خاکہ ”محنت پسند خرد مند“کے تعارف سے ہی بنتا دیکھا جا سکتا ہے:
”جہاں لوٹ مار اور غارت و تاراج کا قدم آئے وہاں احتیاج و افلاس نہ ہو تو کیا…… اب پچھتانے سے کیا حاصل ہے۔ ہاں ہمت کرو اور محنت پر کمر باندھو!…… احتیاج اور افلاس کا ایک بیٹابھی ہے جس کا نام محنت پسند خرد مند ہے۔ اس کا رنگ ڈھنگ کچھ اور ہے کیونکہ اس نے امید کا دودھ پیا ہے۔ ہنر مندی نے اسے پالا ہے۔ کمال کا شاگرد ہے، ہو سکے تو جا کر اس کی خدمت کرو۔“
محمد حسین آزاد جب اس انداز میں ”محنت پسند خرد مند“کو نجات دہندہ قرار دیتے ہیں تو اس ضمن میں اختر حسین بلوچ کی رائے بھی اہمیت کی حامل ہے۔ جس کی روشنی میں ”محنت پسند خرد مند“کے کردار سے مراد سرسیّد احمد خاں ہی ہیں۔
روشن خیالی:
سرسیّد احمد کی شخصیت میں ناصرف مسلمانوں کی سیاسی اور تعلیمی تربیت میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی بلکہ اخلاقی اور مذہبی موضوعات پر بھی اپنی روشن خیالی کے نقوش چھوڑے۔ سرسیّد احمد خان نے اس وقت مسلمانوں کے خیالات میں تبدیلی لانے کی تحریک کا آغاز کیا جب مسلم معاشرہ زوال پذیری کی جانب تیزی سے بڑھ رہا تھا۔ انہوں نے ایک ایسے نظریے کی بنیاد رکھی جس کی بنیاد پر مسلمان 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد کسمپرسی کا شکار تھے۔ انہوں نے سائنسی فکر و سوچ کے زاویوں سے ہم آہنگ ہو کر سر سیّد کی ترقی پسندی انسان دوستی اور روشن خیالی کو اپنی فکر کی بنیاد بنایا۔ سرسیّد سے قبل مسلمان علمی، ادبی اور تعلیمی میدان میں انتہائی ربوں حالی کا شکار تھے۔
نیرنگ خیال میں تخیل:
یہ حقیقت اظہر من الشمسں ہے کہ محمد حسین آزاد کی اپنے سماجی ماحول اور مزاج میں عدام موافقت تھی جس کی مضبوط وجہ ”نیرنگِ خیال“ میں ان کے تخیلات کی کارفرمائی کی بہتات سے سمجھی جا سکتی ہے۔ آزاد بہر حال اسمِ بامسّمیٰ بھی تھے وہ اپنے دور کے نو آبادیاتی نظام کے تنگ و تاریک راستوں پر امید کے دئیے بھی جلاتے گئے مگر باقاعدہ کسی تحریک کا سہارا بھی نہیں لیا۔
بقول مرزا محمد منور:
”بہرحال آزاد نے اُردو نثر کے سرمائے کو بڑی وسعت دی۔ اُردو کو ایک نئے اسلوب سے آشنا کیا۔ وہ سرسیّد اور شبلی کے حلقے سے باہر رہ کر کام کرتے رہے۔ اُنہیں سرسیّد کی تحریک سے ہمدردی تھی۔ وہ حقیقت پسند تھے۔ زمانے کا ساتھ دینا چاہتے تھے۔۔۔ وہ اپنے من میں ڈوب کر مصروف کاررہے۔ کسی نئی تحریک کی مخالفت نہیں کی، محض اپنے کام سے کام رہا۔ وہ ہجوم خلائق میں بالکل اکیلے تھے۔ سرسیّد کو سراہا مگرا پنے انداز پر قائم رہے۔“
مقصدیت:
سرسیّد احمد خاں کی مقصدیت اس بات کی متقاضی تھی کہ ہندوستانی مسلمان اپنے آپ کو سیاسی و سماجی ماحول کے تقاضوں کے مطابق ڈھال لیں۔ خواہ فی الوقت وہ کتنے ہی مخالف و معاند ہوں۔ وہ اس بات کے لیے ہمہ وقت کوشاں تھے کہ مسلمان اپنی توانائیاں اور اپنا عمل ان حالات و شروط سے ہم آہنگ کریں جو نئے حکمرانوں کی بنا پر عائد ہوئی تھیں۔ اُس وقت کے حالات اسی بات کا تقاضا کررہے تھے کہ مسلمان نجات و آزادی کے لیے اپنا ہر عمل محنت اور جدید تعلیم کے حصول کے لیے صرف کریں۔ محنت پسند خرومند کا شخصی خاکہ دراصل سرسیّد احمد خاں کا اُس نوآبادیاتی نظام میں اُبھرتا ہوا اِستعاراتی تصوّر ہے جسے اِس تعارف سے بخوبی محسوس کیا جاسکتا ہے۔
”دامن ِ کوہ میں دیکھا کہ ایک جواں قوی ہیکل کھڑا ہے۔ چہرہ اُس کا ہواسے جھرایا ہوا، دھوپ سے تمتماتا ہوا، مشّقت کی ریاضت سے بن اینٹھا ہوا، پسلیاں اُبھری ہوئیں، ایک ہاتھ میں کچھ کھیتی کا سامان، ایک ہاتھ میں معماری کے اوزار لیے ہانپ رہا ہے اور ایسا معلوم ہوا کہ ابھی ایک بُرج کی عمارت کی بنیاد ڈالی ہے۔ سب نے جُھک کر سلام کیا اور ساری داستان اپنی مصیبت کی سُنائی۔ وہ اُنھیں دیکھتے ہی ہنسا اور قہقہہ مار کر پکارا کہ ”آؤ انسانو! نادانو!آرام کے بندو! عیش کے پابند! آؤ آؤ، آج سے تم ہمارے سپرد ہوئے، اب تمھاری خوشی کی اُمید اور بچاؤ کی راہ اگر ہے تو ہمارے ہاتھ ہے۔ خسروِ آرام ایک کمزور، کام چور، بے ہمت، کم حوصلہ، بھولا بھالا، سب کے مُنہ کا نوالہ تھا، نہ تمہیں سنبھال سکا نہ مصیبت سے نکال سکا۔“
تمثیلی انداز:
یوں اس مردف و مقفیٰ، تمثیلی پیرائے میں محمد حسین آزاد نے مغل سلطنت کے ٹمٹماتے ہوئے آخری چراغ اور اُس تلخ حقیقت کے اِدراک کو بڑے کرب سے بیان کیا ہے کہ جو نوآبادیاتی نظام کی صورت ہندوستانی مسلمانوں کو افسردہ، نااُمید وبددل کیے ہوئے تھا۔ یہ وہ نوآبادیاتی نظام تھا کہ جس میں سرسیّد مسلمانوں کو پُر اُمید و متحرک کرنا چاہتے تھے۔ اس نظام ِ زندگی سے مسلمان قوم میں احساس ِ محرومی اس قدر جڑ پکڑ گیا تھا کہ وہ اپنے تیئں غلام تصور کرتے رہتے۔ یہی منفی عمل تھا کہ جس نیسرسیّد کی فعالیت کے کے جواب میں ردِعمل کی صورت بے عملی اور مسلسل جمود و کا مظاہرہ کیا۔
انگریزی مضامین سے استفادہ:
”نیرنگِ خیال“میں محمد حسین آزاد نے نوآبادیاتی نظام کے نفسیاتی و عمرانیاتی محرکات کو لامحالہ طور پرcaptureکرنے کے لیے انگریزی مضامین سے استفادہ کیا۔ دوسری طرف یہ بات بھی لائق تحسین ہے کہ وہ اُن مضامین کی ہندوستانی سرزمین سے مطابقت پیدا کرنے میں بے حد کامیاب رہے۔ ”نیرنگِ خیال“کے ہر ہر انشائیہ کا رنگ و موضوع اس بات کا عکاس ہے کہ دُنیا کے سارے سماجوں کا بیانیہ societal discourse میں ایسے ہی ڈھل جاتا ہے کہ جیسے بہت سے دریا ایک سمندر میں او ر سمندری دُنیا بہت سی کہانیوں کے توڑ جوڑ سے ایک مہابیانیے کو جنم دیتی ہے۔ یہی مثال ”نیرنگِ خیال“ میں ملتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِن سب کے لیے محمد حسین آزاد کو تمثیلیہ پیرائے میں بیان کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ بڑی واضح سی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ مایوسی، غم و غصے کے جذبات سے لبریز قوم کو براہِ راست نکتہ چینی سے نہیں بلکہ تدبر و دانائی سے کسی راہ کو چُننے کی ہدایت دینے کا عمل اسی طور پورا ہو سکتا تھا۔ اسی رنگ ڈھنگ کو حالی نے ”مسدس حالی“ میں برتا۔
لچک داری:
”نیرنگِ خیال“کے مضامین کی لچکداری فضا اسے ہر دور سے موافق کرتی ہے اور یہی ایک بڑے ادب کی پہچان بھی ہے کہ وہ ہرزمانے میں قابلِ تقلید و ستائش ہو۔یہ محمد حسین آزاد کا محنت سے ہانپتا کانپتا اور معماری کے اوزار ہاتھ میں لیے ”محنت پسند خرومند“ کا کردار کوئی اور نہیں سرسیّد احمد خاں ہی ہے کہ جس نے خوابِ غفلت میں ڈوبی ہوئی قوم کو راہِ حق کے انتخاب کی طرف راغب کیا۔ ”محنت پسند خرومند“کے کردار کے ذریعے سرسیّد احمد خان کی اُس گہری بصیرت کی نشاندہی ہوتی ہے کہ جو اُنہوں نے نو آبادیاتی نظام سے ہندوستانی سرزمین کو آزاد کرانے کے لیے اختیار کی۔
سچ جھوٹ کا روزنامہ:
سرسیّد احمد خاں کی اس حکمتِ عملی اور اُس کے پرچار میں حائل دشواریوں کو سرسیّد کے تمام حامیوں نے نہ صرف جھیلا بلکہ اس پر ڈٹے رہے۔ آزادؔ نے نوآبادیاتی نظام کے جلو میں جھوٹی تہذیب اور گورکھ دھندوں کی بھی قلعی کھول دی ہے ”نیرنگِ خیال“کے ایک مضمون ”سچ جھوٹ کا روزنامہ“ میں وہ یوں گویا ہوتے ہیں کہ:
”چنانچہ اب یہی وقت آگیا ہے یعنی جھوٹ اپنی سیاہی کو ایسا رنگ آمیزی کرکے پھیلتا ہے کہ سچ کی روشنی کو لوگ اپنی آنکھوں کے لیے مضر سمجھنے لگتے ہیں۔ اگر سچ کہیں پہنچ کر اپنا نور پھیلانا چاہتا ہے تو پہلے جھوٹ سے کچھ زرق برق کے کپڑے مانگ تانگ کر لا تا ہے۔ جب تبدیلی لباس کرکے وہاں جا پہنچتا ہے تو وہ لفافہ اُتار کر پھینک دیتا ہے پھر اپنا اصلی نْور پھیلاتا ہے کہ جھوٹ کی قلعی کُھل جاتی ہے۔“
یہ جھوٹ کا زرق برق لباس، انگریز کا استحصالی نظام تھا کہ جس کا چولا پہنے سرسیّد بھی مسلمانوں کو (ابتدا میں)اس نظام کا ایک ٹاؤٹ معلوم ہوتے تھے مگر دیر آئے درست آئے کی مصداق مسلمانوں پر بھی حقیقت آشکار ہوجاتی ہے کہ سرسیّد ہی وہ حقیقی ”محنت پسند خردمند“ ہے کہ جو اپنے فہم و ادراک کے باعث اْمتِ مسلمہ کی رہنمائی و بھلائی کے لیے تادمِ مرگ کمر بستہ رہا۔
بقول ِ اکبرا لٰہ آبادی:
واہ رہے سیّد پاکیزہ گوہر کیا کہنا
یہ دماغ اور حکیمانہ نظر کیا کہنا
صدمے اُٹھائے، رنج سہے، گالیاں سُنیں
لیکن نہ چھوڑا قوم نے خادم نے اپنا کام
ماحولیاتی رنگ و آہنگ:
سماجی استحصال و جبریت نے ہندوستانی ماحول پر ڈر، خوف، دہشت اور احساس محرومی کا ایک تاریک و سیاہ غلاف چڑھا رکھا تھا۔ اس تاریک و سیاہ غلاف نے دو طرح کے مزاحمتی رویوں کی پرورش کی۔ ایک مزاحمتی رویے نے مذہب کے ہالے میں ہندوستانی عوام کو ایڈجسٹ کرنے کی کوشش شروع کی تو دوسرے نے کچھ دھیمے انداز میں قدم بڑھانے اور تاریکی سے نجات کا راستہ ڈھونڈنے کی راہ میں موافقت پائی۔ اس ماحولیاتی رنگ و آہنگ سے بہرحال ایک خوف و ہراس کی فضا پورے ہندوستانی منظر نامے پر غالب نظرآتی ہے۔ ”گلشن اُمید کی بہار“میں آزاد اس رنگ کی تصویر کشی یوں کرتے ہیں:
”ان کے دیکھتے ہی سارے باغ اور چمن آنکھوں میں خاک سیاہ ہوگئے اور یہ معلوم ہوا کہ بس عیش و آرام کا خاتمہ ہوگیا۔ دلوں میں خوف و ہراس چھا گیا۔ لوگ جو ڈر کے مارے چیخیں مار مار کر چلائے تو گویا عالم میں ایک کہرام مچ گیا۔“
نوآبادیاتی نظام کی منظوم شکل:
محمد حسین آزاد کے انشائیہ کا یہ امتیاز ہے کہ ”نیرنگِ خیال“ نو آبادیاتی نظام کی منظوم مگر نثری داستان ہے کہ جسے نظم کرنے کے لیے انہوں نے انشا پردازی کے اُس رجحان سے استفادہ کیا جو سرسیّد تحریک کے مشن کی ایک خاص جہت تھی۔ مسلسل جدوجہد کی اخلاقی تربیت سے مزین عکاسی ”آغازِ آفرینش میں باغِ عالم کا کیا رنگ تھا اور کیا ہوگیا“ سے یوں شروع ہوتی ہے کہ پھر اس کا ہر اگلا مضمون پچھلے انشائیہ کی ترقی یافتہ شکل ہونے کے ساتھ ساتھ پچھلی بات کی اگلی کڑی، مزید صورت یا سیڑھی کہی جاسکتی ہے۔ ”آغاز آفرینش“ والے پہلے انشائیہ میں سماج کی تنزلی و عْروج کی منطقی صورت پیش کرنے کے بعد وہ اُس حقیقت سے آنکھیں چارکرواتے ہیں کہ جسے نفسی واخلاقی کمزوری کہا جاتا ہے یعنی ”انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا“
”سقراط حکیم نے کیا خوب لطیفہ کہا ہے کہ اگر تم اہل دُنیا کی مصیبتیں ایک جگہ لا کر ڈھیر کردیں اور پھر سب کو برابر بانٹ دیں تو جو لوگ اب اپنے تئیں بدنصیب سمجھ رہے ہیں وہ اس تقسیم کو مصیبت اور پہلی مصیبت کو غنیمت سمجھیں گے۔“
”نیرنگِ خیال“کے متنوع الموضوعات کے حامل مضامین جس محتاط رویے سے رقم کئے گئے اُس کی بادی النظر نو آبادیاتی نظام کے تحت پروان چڑھنے والا وہ ہندوستانی سماج تھا کہ جو روز جبر کی نئی داستان بقول غالبؔ یوں رقم کرتاتھا کہ:
روز یہاں اک حکم نیا ہوتا ہے
کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا ہوتاہے
خیر و شر کے تصورات کی کہانی صورت:
جبریت کی اس فضا نے تعمیری عمل کو بھی مشکوک بنادیا تھا۔ تعمیر کو تخریب کے شکوک و شبہات سے نجات دلانے کے لیے ہی آزاد نے خیر و شر کے روایتی تصور کے بیان کو کہانی کی صورت دلپذیر ضروربنادیا۔ مگر اسے اس کے لئے جو ایک الگ تکنیک برتی وہ انشائیہ طرز ہے۔ ایسے انشائیہ کی دورِ جدید میں بھی لکھے جانے کی بے حد ضرورت ہے کہ جو انشا میں کہانی کی طرز پر واعظ، تبلیغ اور نصیحت کرے۔ یہ جدید ملائی طرزِ نصیحت تھا کہ جس نے آزاد کے خیالات کو دھاڑ اور چنگھاڑ کی اثرپذیری سے مملو کرکے اظہار کے شفاف اسلوب بیان کی ہمت دی۔ آزاد جانتے تھے کہ ہماری سماجی ابتری کی ایک بڑی وجہ ہمارا اخلاقی عدم توازن بھی ہے۔ جو نئے سماجی علوم کی سمجھ سیکھ کے لیے سماجی روّیوں میں لچکداری راہ کے پنپنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اس حقیقت کو وہ یوں بیان کرتے ہیں کہ:
”مگر میں فقط ایک ہی بات میں حیران تھا اور وہ یہ تھی کہ اتنے بڑے انبار میں کوئی بے وقوفی یا بداطواری پڑی ہوئی نہ دکھائی دی۔ میں یہ تماشے دیکھتا تھا اور دل میں کہتا تھا کہ اگر ہوس ہائے نفسانی اور ضعفِ جسمانی اور عیوب ِ عقلی سے نجات پانی چاہیئے تو اس سے بہتر موقع نہ ہاتھ آئے گا۔ کاش کہ جلد آئے اور پھینک جائے۔“
گلدستہ اخلاق:
آزاد کی تمام انشائی طرز پر جذبے کی تاثیر، صداقت، خلوص اور ہمدردی کی وہ خالصیت غالب نظر آتی ہے کہ جو سرسیّد احمدخاں کی فعالیت کا بھی اظہار ہے۔ سماج سدھار کا یہ رویہ اُس دور میں کسی ذاتی ضرورت یا کسی مسلک کے ساتھ مشروط نہ تھا۔ آزاد کا کمال ِ فن یہ ہے کہ وہ لفظ، معانی اور خیال کے سنگم سے انشا پردازی کو مقصدیت کی راہ پر گامزن کرنے میں نہ صرف کامیاب ہوئے بلکہ نو آبادیات سے مسخ شدہ انسانی سماج کے لیے مختلف انشائی صورتوں کی مدد سے ”نیرنگ خیال“ سا گلدستہ اخلاق بھی سجایا۔ یہ گلدستہ اخلاق اِس طرزِ نو پر مرصّع ہے کہ اس کا گلدان کوئی بھی نوآبادیاتی سماج ہوسکتا ہے۔
مجسمہ سازی:
آزاد اِسی گلدستہ مضامین میں جب ”علوم کی بدنصیبی“ بیان کرتے ہیں تو پھر علوم و فنون کو بھی اس انداز میں مجسم کرتے ہیں کہ سر سیّد احمد خاں کی شخصیت کا عملی و سماجی پہلو جامع انداز میں میں ابھرتا ہے کہ جہاں مصلحتیں تو ضرور ہیں مگر کوئی مصلحت کوتاہ ہمتی کا باعث نہیں بنتی۔ ”علوم و فنون نے بہت دھکے کھا کر معلوم کیا کہ اب اس جہان میں رہنا عزت نہیں بلکہ بے عزتی ہے۔“
سرسیّد احمد خاں کے جدید علوم و فنون سیکھنے کے پیغام کی آزاد نے انشائیہ طرز کی عصری ضرْورت کے تحت ترویج کی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ فرسودہ، کہنہ اور استحصالی نظام کے تسلط سے نجات صرف جدید علوم کی اشاعت و ترویج سے ہی ممکن ہے۔
بقول اختر حسین بلوچ:
”سرسیّد احمد خاں یہ سمجھتے تھے کہ اگر کسی قوم نے ترقی کرنی ہے تو اس کے لئے تعلیم بنیادی چیز ہے بغیر تعلیم کے انسان مختلف علوم کے بارے میں جاننے سے محروم رہتا ہے اور تعلیم ہی ایک ایسا ہتھیار ہے کہ جس کے ذریعے وہ نہ صرف اپنی بلکہ اپنے معاشرے کی اور قوم کی بھی تقدیر بدل سکتا ہے۔۔ کوئی قوم اُس وقت تک معاشی اور سماجی طور پر خوش حال نہیں ہوسکتی جب تک وہ تعلیم سے بے بہرہ ہو ترقی کا راز تعلیم میں ہی مضمر ہے۔ سرسیّد کو مسلمانوں کی تعلیمی میدان میں پسماندگی کا بہت بہت دُکھ تھا۔“
اہلِ ہند کا رد عمل:
سرسیّد احمد خاں کا یہ شعور روایت اور جدت کا اعلیٰ امتزاج بھی ہے اور نوآبادیاتی نظام میں جکڑے ہندوستانی مسلمانوں کے لیے خلوص کا بہترین معیار بھی۔ سرسیّد احمد خاں کا یہ شعور حقائق کو تسلیم کرلینا اور پھر سیاسی، سماجی و معاشی مسائل کا واحد حل جدید تعلیم کے حصول میں کوشاں رہنے کے عملی تصور کو پیش کرتا ہے۔ سرسیّد احمد خاں کی اس شعوری کاوش کے جواب میں اہل ہند کے ردِ عمل کو آزاد نے ”علمیت اور ذکاوت کے مقابلے“ کی صورت یوں مضمون کیا ہے:
”القِصّہ جب ذکاوت اور علم دونوں نے دیکھا کہ اہل دُنیا کا وہ حال ہے اور جو نوکر اپنے تھے وہ سب نمک حرام ہوگئے تو دونوں نے مِل کر دو عرضیاں تیار کیں جن میں دولت اور دولت پر ستوں کی زیادتیاں اور اپنے نمک حراموں کی بدذاتیاں سب لکھیں اور سلطانِ آسمانی کی خدمت میں بھیج کر التجا کی کہ ہمیں ہماری قدیمی آرام گاہ میں جگہ مل جائے۔“
……٭……٭……

Leave a Comment