جواب: پطرس بخاری:
پطرس بخاری کی ادبی شہرت کا باعث ایک چھوٹی سی کتاب مضامین پطرس ہے۔ جو صرف گیارہ مضامین پر مشتمل ہے۔ اردو ادب میں اتنے کم علمی سرمایے کے ساتھ بقائے دوام کے دربار میں جگہ حاصل کرنے کی مثالیں اردو میں شاذ ہیں۔ شعری ادب میں دیوان غالب کو یہ سعادت حاصل ہوئی ہے کہ کہاں سے سب سے زیادہ پڑھا جاتا ہے۔ بظاہر پطرس کو غالب سے تشبیہ دینا ایک بے جوڑ سی بات معلوم ہوتی ہے۔ لیکن ان میں مماثلت کے کئی پہلو موجود ہیں۔
غالب اور پطرس:
غالب اور پطرس دونوں نے مزاح میں تفکر کے عنصر کا اضافہ کیا۔دونوں نے زبان کے تمام تر امکانات کو بروئے کار لاکر مزاح تخلیق کیا۔ دونوں کو زندگی سے انس تھا اور دونوں زندگی سے محظوظ ہونے کی صلاحیت بھی رکھتے تھے۔ اس پر مستزاد یہ کہ دونوں نے اپنی تحریروں کا کڑوا انتخاب کیا اور یوں ان کی تحریریں زمان و مکان ان کی حدود کو پھلانگ کر آفاقی حیثیت اختیار کر گئیں۔
معیار:
غالب اور پطرس کی تخلیقات بات اس امر کا ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ اصل چیز مقدار نہیں معیار ہوتی ہے۔ انگریزی شاعر یار ٹامس گرے کی اصل شہرت اس مرثیے کی بدولت ہے جو انہوں نے ایسے افراد کے متعلق لکھا جو شہرت اور ناموری سے محروم رہے۔ اس مرثیے کے علاوہ وہ اور کچھ نہ بھی لکھتے تب بھی شہرت کی بلندیوں پر فائز رہ سکتے تھے۔
”مضامین پطرس“ کے علاوہ پطرس نے اور بھی بہت کچھ لکھا۔ یہ تمام تحریریں نقوش کے پطرس نمبر اور کلیات پطرس میں شامل ہیں۔
مضامین پطرس سب سے پہلے 1930ء میں شائع ہوئے مضامین پطرس گیارہ مزاحیہ مضامین پر مشتمل ہے۔ پطرس نے کتاب کے ابتدائمیں اپنے استاد پروفیسر محمد سعید کے نام انتساب کیا ہے۔ جنہوں نے اس کتاب پر نظر ثانی کی اور اسے غلطیوں سے پاک کیا۔ ایک سچے عالم اور تخلیق کار کی پہلی نشان دہی یہی ہے کہ وہ انکسار اور عاجزی کو اپنا وطیرا بنائے رکھتا ہے پطرس بڑی فراخ دلی سے اپنی کمزریوں کا اعتراف کرکے ایک عظیم انسان ہونے کا ثبوت دیتا ہے۔ انتساب کے بعد دیباچے سے مزاح کا باقاعدہ آغاز ہوجاتا ہے۔ اپنے دلچسپ دیباچے میں انھوں نے اختصار، حقیقت اور طنز و مزاح سبھی کچھ سمو دیا ہے دبیاچے میں پطرس کڑوی گولی شکر میں لپیٹ کر پیش کرتے دکھائی دیتے ہیں اور دیباچے میں ہی خود اپنی کتاب اور اپنی ذات کو مزاح کے لیے پیش کردیتے ہیں:
”اگر یہ کتاب آپ کو کسی نے مفت بھیجی ہے تو مجھ پر احسان کیا ہے اگر آپ نے کہیں سے چرائی ہے تو میں آپ کے ذوق کی داد دیتا ہوں۔ اپنے پیسوں سے خریدی ہے تو مجھے آپ سے ہمدردی ہے اب بہتر یہ ہے کہ آپ اسے اچھا سمجھ کر اپنی حماقت کوحق بجانب ثابت کریں۔“
مزاح نگاری کا علم بردار:
کتاب کے تقریباً سارے مضامین میں انھوں نے اسی روش کو برقرار رکھا ہے اور کہیں بھی کسی اور کو طنز کا نشانہ نہیں بنایا اس لیے وہ اردو ادب میں خالص مزاح نگاری کے علمبردار دکھائی دیتے ہیں۔ مجموعی طور پر مضامین پطرس میں، پطرس نے انگریزی مزاح کے تقریباً سبھی حربوں سے فائدہ اُٹھایا ہے۔ لیکن اُن کا پسندیدہ حربہ صورت واقعہ ہے۔ ہر مضمون اس حربے سے مزئین نظرآتا ہے مزاح میں صورت واقعہ ایک مشکل حربہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ فنکار کی ذرا سی شعوری کوشش بنا بنایا کھیل بگاڑ سکتی ہے۔ اس لحاظ سے پطرس نہایت کامیاب مزاح نگار کہے جا سکتے ہیں کہ وہ کہیں بھی اپنا رشتہ قاری سے نہیں توڑتے اور ہر حربے کا استعمال خوبی اور غیر شعوری طور پر کر جاتے ہیں۔
متوازن فن کار:
پطرس خالص مزاح نگار ہونے کے ساتھ ساتھ فنکار بھی نظرآتے ہیں ایک خالص مزاح نگار کی حیثیت سے ہر مضمون میں مزاح کے لیے اپنی ذات کو پیش کرتے ہیں اور ایک متوازن فنکار کے لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ چاہے کتوں کاخوف ہو، ہاسٹل میں داخلہ ہو، سحر خیزی ہو، لیڈری میں انڈے کھانے ہوں، سینما کا عشق ہو، بیوی سے وفاداری والامعاملہ ہو، میبل سے کتاب بینی کا مقابلہ ہو۔ یا سائیکل پر سوار ہوکر گر پڑ نا ہو وہ کہیں بھی اپنی ذات کو یوں پیش کرتے ہیں کہ قاری اسے مسخرہ یا بانڈھ سمجھے۔ وہ زندگی کی ناہمواریوں کو یوں سامنے لاتے ہیں کہ قاری بھی اُسے ہمدردی سے دیکھنے لگتا ہے اور اس خوبی نے ان کی مزاح کواعلیٰ درجے کی ظرافت کا درجہ دیا ہے۔
اعلیٰ درجے کے مزاح……زبان کا کردار:
جہاں کہیں مزاحیہ ادب کا تنقیدی جائزہ لیا جاتا ہے، یہ دونوں اصطلاحیں ساتھ ساتھ استعمال کی جاتی ہیں۔ طنز زندگی اور اس کے احوال و آثار سے برہمی کے نتیجے میں جنم لیتا ہے اور اس کا نشانہ مخاطب کی کوئی کمزوری ہوتی ہے جبکہ مزاح زندگی اور اس کے متعلقات سے محبت اور مفاہمت امت کا نام ہے۔ طنز کا مقصد اور مدعا اصلاح ہے۔ طنز نگار شعر برائی کو کچھ اس انداز سے پیش کرتا ہے کہ اس سے نفرت ہونے لگتی ہے جبکہ مزاح نگار کسی خامی، بدصورتی یا بے تکے پن پر خوش دلی سے اسے ہنسنے کا ہنر سکھاتا ہے۔ اس میں غصہ یا تلخی کا دخل نہیں ہوتا بلکہ اس کا منشا صرف اور صرف حصول مسرت ہوتا ہے۔ مرزا کے لیے طنز کا ہونا ضروری ہے لیکن اگر طنز میں مزاح کا عنصر شامل نہ ہو تو وہ بے مزہ بن کے رہ جاتا ہے اور قاری کو سوائے کڑواہٹ کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
اُسلوب:
اسلوب کا انگریزی مترادف لفظ سٹائل ہے۔ اسلوب کسی ادیب کے اس ذاتی وصف کو کہتے ہیں جو اس کی پہچان ہوتے ہیں۔ جس سے اس کی شخصیت سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ کارلائل کے الفاظ میں میں یہ ادیب کا لبادہ نہیں کہ وہ جس وقت چاہے اسے اتار پھینکے بلکہ یہ اس کی جلد بدن ہے۔ اسلوب کا تعلق مواد اور زبان دونوں سے ہے۔ اس کی بدولت ہم صاحب طرز ادیبوں کی تحریروں کو ایک نظر دیکھ کر پہچان لیتے ہیں۔ غالب کی نثر اور شاعری قاری میر کا رنگ سخن اقبال کی انقلابی شاعری ابوالکلام آزاد کی کی جلا لین سر مشتاق احمد یوسفی صوفی مختار مسعود اور رشید احمد صدیقی کی زندہ نثر اپنی ایک الگ پہچان رکھتی ہیں۔ صاحب اسلوب نثر نگاروں میں میں پطرس بخاری بھی ایک ممتاز حیثیت کے مالک ہیں۔
پطرس بخاری کے مضامین کا جائزہ اور اسلوب نثر:
پطرس بخاری کا اسلوب حبیب بن مظاہر بہت سادہ ہیں لیکن اس میں بڑی جان ہے نہیں یہ درج ذیل خصوصیات پر مشتمل ہے۔
واقعاتی مزاح:
پطرس بخاری کے بارے میں میں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ وہ واقعات سے مزاح پیدا کرتے ہیں۔ اس بیان میں جزوی صداقت پائی جاتی ہے۔ وہ مواد اور طرز ادا دونوں سے بھرپور کام لیتے ہیں۔ زندگی کی تلخ حقیقتیں ان کے پیش نظر ہیں۔ اس لحاظ سے ان کا مشاہدہ بہت وسیع ہے۔ وہ اس تلخ حقیقتوں کو نہایت خوشگواراور مزاحیہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔ صورت واقعہ کی تعمیر میں پطرس خاص سلیقہ رکھتے ہیں، بقول وزیر آغا:
”وہ واقعہ کے مختلف کڑیوں کو اس انداز سے مضبوط کرتا ہے کہ مضحک کیفیات کی نمود کسی شعوری کاوش کا نتیجہ معلوم نہیں ہوتی۔ بلکہ از خود حالات و واقعات کی ایک مخصوص نہج سے ابھرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔“
مریدپور کا پیر:
اس کی بہترین مثال ”مریدپورکاپیر” ہے۔اس مضمون میں واقعات کے بیان پر پطرس کی گرفت اتنی مضبوط ہے کہ وہ اپنے ہیرو سے بیشمار توقعات وابستہ کرتے ہیں اور پھر اسے ناکام دکھا کر ہنسی کا سامان فراہم کرتے ہیں۔ واقعے کی کی بنت اور مرزا کی تخلیق کا یہی انداز ہمیں ان کے مضمون ’مرحوم کی یاد میں‘ بھی ملتا ہے۔ بائیسکل کا تمام واقعہ کردار کی ناہمواریوں کے باعث مزاحیہ صورت واقعہ کو بھرتا چلا گیا ہے۔ یہ بائی سائیکل بالآخر دریا بردکی جاتی ہے اسی بنا پر پر اسے مرحوم کہا گیا ہے۔
موضوع کا انتخاب:
پطرس بخاری کے دیگر مضامین کی اٹھان بھی یہی ہے موضوع کے انتخاب میں بھی وہ بڑی ہنر مندی کا ثبوت فراہم کرتے ہیں۔ ان کے موضوعات ہنگامی نوعیت کے نہیں بلکہ آفاقی قدروں کے حامل ہوتے ہیں۔ جن کی طبیعت ”موسم” کی قید سے آزاد ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کئی جملے امر ہو گئے ہیں اور اشعار کی طرح ان کی نقل حرفی ہوتی ہیں۔
آمد کا احساس:
پطرس کے ہاں آورد کا نہیں آمد کا احساس ہوتا ہے اگرچہ اس امت کے پیچھے مجھے انہوں نے خاص خون جگر صرف کیا ہوتا ہے تب کہیں نہیں مصرع تر کی صورت سامنے آتی ہیں۔ پطرس کی ظرافت صحت و اقعات اور الفاظ دونوں کی محتاج ہے۔
الفاظ کا جادو:
”مرید پور کا پیر“ اور”سویرے جو کل آنکھ میری کھلی“ میں الفاظ کا جادو ہی ہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ بعض واقعات مزاح کا پہلو نہیں رکھتے لیکن وہ ان واقعات کو الفاظ کے ذریعے کچھ اس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ وہ واقعہ مزاحیہ معلوم ہونے لگتا ہے۔ اگر الفاظ میں تبدیلی پیدا کر دی جائے تو وہ واقعہ اپنی تاثیر کھو دیتا ہے۔
تفکر:
جو چیز پطرس بخاری کو اپنے ہم عصروں سے ممتاز کرتی ہے وہ ان کا مفکرانہ نہ انداز ہے۔ اس کے مضامین اس امر کے شاہد ہیں کہ وہ فکر کی بیداری کے ساتھ ساتھ قاری کو بھی محفوظ کرتے ہیں۔ مضحکہ خیز کو مضحکہ خیز دکھانا کوئی کمال نہیں مزحا نگار کا کمال یہ ہوتا ہے کہ وہ عام موضوعات اور واقعات کے اندر سے ایسی چیزیں دی تلاش کرے جو ہنسی کا سبب بنیں۔ ”مرحوم کی یاد میں ” اور ”سویرے جو آنکھ میری کھلی ” اس کی بہترین مثال ہیں۔
ندرت خیال:
یہ خصوصیت بھی تفکر ہیں کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں اور اس کا سرچشمہ ذہانت ہے۔ پطرس نے اپنے مضامین میں اس کا عمدہ ثبوت فراہم کیا ہے۔
”بھونکتے ہوئے کتے کاٹا نہیں کرتے، یہ بجا سہی لیکن کون جانتا ہے کہ ایک بھونکتا ہوا کتا کب بھونکنا بند کر دے اور کاٹنا شروع کر دے۔“
الٹ پھیر:
مزاح نگار عام طور پر واقعے کی بنت یا لفظوں کے الٹ پھیر سے مزاح پیدا کرتاہے تاہم حقیقت یہ ہے کہ اعلی درجے کی ظرافت خیال کے اچھوتے پن سے ہی پیدا ہوتی ہیں۔ پطرس کے ہاں اس کی کئی مثالیں مل جائیں گی صرف ایک مثال:
”جوں ہی ہم بنگلے کے دروازے میں داخل ہوئے، کتے نے برآمدے میں کھڑے ہو کر ایک ہلکی سی آواز نکالی اور پھر وہ منہ بند کر کے کھڑا ہو گیا۔ ہم آگے بڑھے تو اس نے بھی چار قدم آگے بڑھ کر ایک نازک اور پاکیزہ آواز میں پھر بخ کردی۔ چوکیداری کی چوکیداری، موسیقی کی موسیقی، ایک ہمارے کتے ہیں کہ راگ نہ سر، سر نہ پیپر،تان پرتان لگائے جاتے ہیں۔ بے تالے مجھے کہیں کے نہ موقع دیتے ہیں وقت پہچانتے ہیں بس بلے بازی کیے جاتے ہیں اور گھمنڈ اس پر ہے کہ تان سین اسی ملک میں پیدا ہوا تھا۔“
خالص مزاح:
خالص مزاح نگار ہونے کے ناطے پطرس زندگی کی ناہمواریوں پر کچھ اس انداز سے روشنی ڈالتے ہیں کہ اس میں طنز یا تلخی کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ ایسا مزاح وہی لوگ تخلیق کر سکتے ہیں جو زندگی کی ان بوالعجبوں پر چراغ پا نہ ہوں بلکہ خوش دلی کے ساتھ اس پر ہنسنے کی ہمت رکھتے ہو۔ ماحول بھی اس ضمن میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ مثلاً اگر ماحول میں سکون اور عافیت ہوگی تو خالص مزاج جنم لے گا۔ یہ بس ماحول کی زہر ناکی طنز کی تخلیق کا باعث بنے گی پطرص کے ہاں اسی خالص مزاح کا غلبہ ہے۔ یہ مزاح قہقہہ سے بہت دور ہے۔ گیس زیر لب تبسم اس کی نمایاں خصوصیت ہے۔ خالص مرزا کی تخلیق کے لیے غیر معمولی قوت اختراعاور زبان پر حیرت انگیز کو درکار ہوتی ہے اس کے لیے زبردست جودت فکر اور فنکارانہ تحمل کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ پطرس نے اس میدان میں یقینا اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ خالص مزاح کی ایک مثال ملاحظہ کیجئے:
”مجھے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ میں پرچوں میں کیا لکھ کر آیا ہوں۔ اسی طرح جانتا تھا ممتحن لوگ اگر نشے کی حالت میں پرچے نہ دیکھیں تو میرا پاس ہونا قطعاًناممکن ہے۔ یہ سب کچھ کرچکنے دیکھئے کہ جب نتیجہ نکلا تو ہم پاس ہوگئے۔ حماقت ملاحظہ فرمائیے کہ ہمیں پاس کر کے اپنی آمدنی کا ایک مستقل ذریعہ ہاتھ سے گنوا بیٹھے۔“
طنز:
وزیر آغا پطرس کو طنز نگار ماننے کے لیے تیار نہیں۔ ہمارے نزدیک پطرس بنیادی طور پر مزاح نگار ہیں طنز نگار نہیں تاہم ان کا ترکش طنز کے تیروں سے خالی نہیں۔ پطرس کے مزاح یہ کردار کبھی مایوسی جھنجھلاہٹ کا شکار نہیں ہوتے۔ ان کا مزاح مایوسی کی نہیں مقابلے کی ترغیب دیتا ہے۔ پھر بھی چلتے چلتے وہ اکبر الہ آبادی کی طرح کسی نہ ہماری پر ایک آدھ چپت رسید کر دیتے ہیں۔
واحد متکلم میں گفتگو:
پطرس کا طنز خالص مزاح کی حدود کو چھوتا ہوا نظر آتا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ وہ واحد متکلم میں گفتگو کرتے ہیں۔ اردو مزاح نگاری کی تاریخ میں شاید پطرس پہلے مزاح نگار ہیں جنہوں نے دوسروں پر ہنسنے کے بجائے خود پر ہنسنے کا رویہ اختیار کیا۔ یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ کس طرح اس نے طنز کے استعمال میں شائستگی کو روا رکھا ہے۔ اس کی بہترین مثال ان کا مضمون”مرحوم کی یاد میں ”ہے جس نے ایک سائیکل پر سوار شعر کی تفصیل کو بڑے معصومانہ اور سیدھا سادہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
”میری طبیعت کچھ ایسی واقع ہوتی ہے کہ میں جب کبھی کسی کی موٹر کار کو دیکھو مجھے زمانے کی ناساز گاڑی کا خیال ضرور ستانے لگتا ہے اوراگر میں سڑک پر پیدل جا رہا ہوں اور کوئی موٹر اس ادا سے گزر جائے کہ گردوغبار میرے پھیپڑوں میرے دماغ اور میری تلی تک پہنچ جائے تو اس دن میں گھر آکر علم کیمیا کی کتاب نکال لیتا ہوں جو میں نے ایف اے میں پڑھی تھی۔ اس سے مطالعہ کرنے لگتا ہوں ہو کہ مجھے بنانے کا کا نسخہ ہاتھ آجائے۔“
الفاظ کا چناؤ:
پطرس الفاظ کے انتخاب میں بہت محتاط ہیں۔کفایت لفظی کا نمایاں وصف ہے، تحریر میں ہر لفظ نگینے کی طرح جڑا ہوا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی تحریر کو بار بار پڑھتے ہیں اور ان کے مضامین بے رحمانہ کا نشان کی زد میں رہتے ہیں۔ مضامین پطرس کا پیش لفظ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
مجموعی جائزہ:
پطرس کے مضامین کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے وہ کہ تقریباً مزاح کے تمام حربوں کو بروئے کار لا کر مزاح پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان حربوں میں رعایت لفظی، موازنہ، صورت واقعہ، کردار اور پیروڈی وغیرہ شامل ہیں اور ان تمام حربوں کی مثالیں اس کتاب میں ہمیں ملتی ہیں۔ اُن کی کتاب کے بارے میں بقول ایک نقاد:
”اگر یہ کہہ دوں کہ ہند و پاکستان کے تمام مزاحیہ کتابوں کو ترازو کے ایک پلڑے میں ڈالا جائے اور پطرس کے مضامین کو دوسرے پلڑے میں رکھے جائیں تو پطرس کے مضامین بھاری رہیں گے۔“
……٭……٭……٭……