تحریر: محمد جمیل اختر
بشیر کا خیال ہے کہ یونہی موٹر سائیکل چلاتے چلاتے اُس کی عمر گزر جائے گی اور وہ کبھی بھی اِس سے زیادہ ترقی نہیں کر پائے گا حالانکہ آج سے پانچ سال پہلے اُس کے پاس صرف ایک سہراب سائیکل تھی…وہ بچپن سے خواب میں خود کو گاڑی چلاتے ہوئے دیکھتا آرہا تھا، خواب میں اُس کا اپنا ایک عالیشان بنگلہ ہے، جس کے گیٹ پر ہمہ وقت دو مستعد نوجوان بندوقیں اٹھائے پہرہ دے رہے ہوتے ہیں۔ جب بشیر گھر آتا ہے تو وہ اسے سلیوٹ مارتے ہیں اور بھاگ کر گاڑی کا دروازہ کھولتے ہیں، بشیر کا بریف کیس تھام کر ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور اپنے مسائل بشیر کو بتاتے ہیں…خواب میں بشیر کئی بار اُن کی تنخواہ اور بچوں کے اخراجات کے مسائل بھی حل کر چکا ہے۔
وہ ایک اڑتیس سال کا، ہر وقت سستے سگریٹ پیتا اور دن رات کھانستا ہوا آدمی ہے جس کے چار بچے اور ایک بیوی ہے۔ اُس کی بیوی کا شادی کے بارہ سال بعد بھی یہی ماننا ہے کہ اگر بارہ برس پہلے اُس کے والدین اُس کے لیے دبئی میں مقیم ویلڈر کا رشتہ منظور کر لیتے تو وہ خوش رہتی لیکن اب وہ بشیر کی بیوی ہے اور ناخوش ہے۔
بشیر صبح سویرے اٹھتا ہے لیکن اِس بات کو یوں لکھنا چاہیے کہ اُس کا سب سے چھوٹا بیٹا جو چھ ماہ کا ہے، منہ اندھیرے ہی رو رو کر اُسے جگا دیتا ہے…وہ بڑبڑاتا ہوا کمرے سے باہر نکلتا ہے اور سگریٹ سلگا کر واش روم میں گھس جاتا ہے۔
اُس کے دو بچے سستے سے پرائیوٹ سکول میں پڑھتے ہیں، اُسے ڈر تھا کہ سرکاری سکول سے پڑھ کر وہ بھی بشیر کی طرح کم آمدنی والے آدمی نہ بن جائیں تو جس قدر ممکن ہو انہیں انگریزی سیکھنی چاہیے، وہ سمجھتا ہے کہ انگریزی کے بغیر دنیا میں ترقی ممکن نہیں…
اُس کے بچے بالترتیب دوسری اور تیسری جماعت میں پڑھتے ہیں اور انہیں ابھی تک انگریزی میں ایک جملہ بولنا نہیں آیا، یہ بات بشیر کو پریشان رکھتی ہے…وہ آئے روز اپنے بچوں کو سامنے بٹھا کر ان سے انگریزی میں نام پوچھتا ہے، وہ چپ رہتے ہیں، اب انہیں چپ کی سزا میں ایک گالی اور تھپڑ بھی پڑتا ہے…
”کم بختو! تم یونہی غریب ہی رہنا۔“
وہ بچوں کو سکول چھوڑتا ہوا اُس اسٹور پر پہنچتا ہے جہاں وہ سیلز مین کی نوکری کرتا ہے، وہاں سے پانچ بجے اسے چھٹی ملتی ہے۔ اسٹور منیجر کا خیال ہے کہ بشیر کئی ماہ سے توجہ کے ساتھ اپنا کام نہیں کر پارہا، بعض اوقات کسٹمرز اُس سے کوئی چیز طلب کرتے ہیں تو وہ انہیں مختلف شے لاکر پیش کردیتا ہے، اِس پر کئی معزز صارفین نے منیجر سے بشیر کی شکایت بھی کی ہے…بشیر یہ نوکری چھوڑ نہیں سکتا اور آئے روز معذرت کرتا رہتا ہے۔ منیجر جب چھٹی کے وقت گھر جاتا ہے تو بشیر بھاگ کر اُس کی گاڑی کا دروازہ بھی کھولتا ہے اور یہ یقین دہانی کراتا ہے کہ آئیندہ وہ پوری یکسوئی سے اپنا کام کیا کرے گا…سارا دن چہرے پر نقلی مسکراہٹ سجا کر رکھنے کی وجہ سے اُس کے جبڑے درد کرنے لگ جاتے ہیں،ا سٹور سے چھٹی کے بعد وہ ایک اور کمپنی میں آن لائن اشتہارات پوسٹ کرنے کا کام کرتا ہے، جہاں سے اُسے رات دس بجے چھٹی ملتی ہے۔
اُس کی آپٹک نروز پہ دباؤ بڑھتا جارہا ہے جس کی وجہ سے روز بہ روز اُس کی نظر کمزور ہوتی جارہی ہے، مکمل علاج کی بجائے وہ ہر سال نئے نمبر کا چشمہ خرید لیتا ہے۔
دوسری نوکری میں جب وہ کمپیوٹر پر کام کررہا ہوتا ہے تو اُس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہتے رہتے ہیں جس کے لیے وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد عرق گلاب کے چند قطرے آنکھوں میں ڈالتا ہے…لیکن ایک وقفے کے بعد آنسو دوبارہ شروع ہوجاتے ہیں…وہ ہر وقت اپنے پاس ایک سفید رومال رکھتا ہے، ڈیوٹی ختم ہونے تک رومال آنسوؤں سے تر ہوجاتا ہے جسے وہ قمیص کی سامنے والی جیب میں رکھتا ہے تاکہ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ہوا سے سوکھ جائے…
وہ آج کل بہت پریشان ہے…
بشیر کا بچپن کا دوست سلیم کئی سال پہلے امریکہ جا چکا ہے،اشتہارات لگاتے ہوئے اُسے انٹرنیٹ آن رکھنا پڑتا ہے اور ایسے میں اُس کا دوست سلیم، اسکائپ کال ضرور کرتا ہے۔
بشیر ہمیشہ کے لیے اسکائپ اور فیس بک کو بند کردینا چاہتا ہے تاکہ امریکہ سے کوئی خبر نہ آئے، وہ امریکہ سے آئی خوشگوار خبروں سے تنگ آچکا ہے۔ جب اُس کا دوست اُسے بتاتا ہے کہ کس طرح وہ صبح سویرے اٹھ کر سیر کو جاتا ہے تو پرندے چہچہارہے ہوتے ہیں، شام کو بچوں کے ساتھ باغ میں سیر کرنے جاتا ہے تو پھول کھلے ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر سلیم کی طبیعت باغ باغ ہوجاتی ہے۔ وہ ایسی ویڈیوز بھی بھیجتا ہے جن میں اُس کے بچے اُس کی گوری بیوی کے ساتھ فَرفَر انگریزی میں گفتگو کر رہے ہوتے ہیں۔ایسے میں بشیر کو اپنی بیوی بچے یاد آتے ہیں تو وہ دکھی ہوجاتا ہے…
چند روز قبل سلیم نے ایسی گاڑی کی تصویر بھیجی جو کہ بشیر کئی سالوں سے خواب میں دیکھتا آرہا تھا، اُس نے دکھ سے اپنا سکائپ اکاونٹ ڈی ایکٹیویٹ کر دیا…
ایک صبح جب اُس کا بیٹا رو رو کر اُسے جگاتا ہے تو آنکھیں کھولنے کے باوجود اُسے کچھ دکھائی نہیں دیتا…
وہ چلا کر بیگم کو آواز دیتا ہے اور مدت بعد پہلی مرتبہ صبح سگریٹ نہیں پیتا…
یہ بشیر کے اندھا ہوجانے کا پہلا دن ہے۔
وہ بچوں کو سکول بھی نہیں لے کر جاسکا اور صحن میں سر جھکائے بیٹھا سوچ رہا ہے کہ زندگی کیسے گزرے گی، زندگی اتنی آسان نہیں کہ بس موٹر سائیکل چلاتے ہوئے گزر جائے…
اسٹور منیجر یقیناً دل ہی دل میں اسے گالیاں دے رہا ہوگا…
اُس کی بیگم باورچی خانے کی کھڑکی سے اُسے دیکھ رہی ہے اور روتے ہوئے سوچ رہی ہے کہ اُس کے والدین نے بارہ برس پہلے کتنا غلط فیصلہ کیا تھا کہ اُس کی شادی مستقبل میں اندھا ہوجانے والے آدمی سے کردی تھی…
اِسی دوران بشیر کا بڑا بیٹا انور اُس کے پاس آکر اُس کا ہاتھ تھام کر کہتا ہے:
”ابا! مجھے انگریزی آگئی ہے، میں سُناؤں؟“
My Name is Anwar and my father’s name is Basheer
ایک آنسو بشیر کی اندھی آنکھوں سے نکل کر زمین میں جذب ہوجاتا ہے…
”میرے بچے! تم اب بڑے ہوگئے ہو، تمہیں کچھ اور کرنا ہوگا…“یہ کہہ کر وہ بیٹے کو گلے لگا کر دہاڑیں مار کر رونے لگ جاتا ہے…
ختم شد