مخلص…محسن حیات شارف

دروازے پر ہونے والی دستک نے میڈم تبسم کو چونکا دیا۔ وہ اس وقت جماعت پنجم میں موجود تھیں اور بچوں کا ہوم ورک چیک کر رہی تھیں۔ انھوں نے کاپیوں سے نظر اٹھا کر دروازے کی سمت دیکھا۔ وہاں آیا موجود تھیں۔ وہ ان کے لیے پرنسپل صاحبہ کا پیغام لائی تھیں۔ انھیں چھٹی کے بعد آفس میں بلایا گیا تھا۔ یہ آخری پیریڈ تھا۔ چھٹی کی گھنٹی بجتے ہی وہ پرنسپل آفس میں چلی گئیں۔
”آئیے، مس تبسم! میں آپ کا ہی انتظار کر رہی تھی۔“
پرنسپل صاحبہ نے مسکراتے ہوئے کہا،
”میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گی۔ مجھے 5 اکتوبر کے پروگرام کے سلسلے میں آپ سے بات کرنی تھی۔“
”جی میڈم! میں سن رہی ہوں۔“
مس تبسم نے کہا۔
”جیسا کہ آپ کو پتا ہے کہ 5 اکتوبر پر یوم اساتذہ کی نسبت سے ہمارے اسکول میں پروگرام ہوتا ہے اور اس دن ہر سیکشن اور مضمون میں بہترین اساتذہ کو اسناد دی جاتی ہیں۔“
پرنسپل صاحبہ نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا،
”لیکن اس دفعہ ہم نے سوچا ہے کہ اس کے علاوہ ایک ایسے استاد کو بھی سند اور شیلڈ دی جائے گی کہ جو کسی ایک مضمون یا سیکشن میں نہیں بلکہ پورے اسکول میں سب سے بہترین ہو گا۔“
مس تبسم پرنسپل صاحبہ کی طرف ہی متوجہ تھیں۔ وہ یہ جاننے کے لیے بے تاب تھیں کہ یہ ایوارڈ کس کو ملے گا۔
”اسکول کی مینیجنگ کمیٹی اور ہم سب نے مل کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ یہ ایوارڈ آپ کو دیا جائے۔“
پرنسپل صاحبہ نے اعلان کرنے کے انداز میں کہا،
”اس اسکول میں آپ سے زیادہ قابل اور تجربہ کار استانی کوئی نہیں۔“
مس تبسم پہلے تو حیرت زدہ انداز میں پرنسپل صاحبہ کو دیکھتی رہیں اور پھر ان کی آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے۔ وہ اپنے مضمون میں بہترین استانی کا ایوارڈ تو کئی دفعہ حاصل کر چکی تھیں لیکن پورے اسکول میں ایوارڈ حاصل کرنے کا احساس ہی انھیں سرشار کر رہا تھا۔
٭
آخر 5 اکتوبر کا دن آ پہنچا۔ اسکول کو بہترین طریقے سے سجایا گیا تھا۔ طلبا اور اساتذہ نے دن کو یادگار بنانے کے لیے شان دار انتظام کیا تھا۔ جلد ہی پروگرام کا باقاعدہ آغاز کر دیا گیا۔ بچوں نے اپنے ٹیلنٹ کا خوب مظاہرہ کیا۔ اب پروگرام آخری مراحل میں داخل ہو چکا تھا۔ اسناد اور شیلڈ دینے کے لیے اساتذہ کرام کے نام پکارے جا رہے تھے اور آخر میں جب مس تبسم کا نام پکارا گیا تو ہال میں بیٹھے سب لوگ ان کے احترام میں کھڑے ہو گئے۔ تالیوں کی گونج یہ بتا رہی تھی کہ واقعی وہ ایک بہترین استانی تھیں۔
انھوں نے اسٹیج پر جا کر اپنا انعام وصول کیا اور مختصر سی تقریر کی۔ اپنی تقریر میں انھوں نے اسکول انتظامیہ کا شکریہ ادا کیا، کچھ پرانی یادیں تازہ کیں اور اسٹیج سے اتر آئیں۔ قومی ترانے کے بعد تقریب کا اختتام ہوا۔
ہال کے ایک طرف کھانے کا بندوبست تھا۔ میڈم تبسم بھی اپنا کھانا لے کر میز پر آ بیٹھیں۔ اسی وقت پرنسپل صاحبہ ان کے پاس آئیں اور انھیں بتایا کہ ان کے کھانے کا انتظام آفس میں کیا گیا ہے۔ میڈم تبسم پرنسپل صاحبہ کے ساتھ آفس میں آئیں تو وہاں انتظامی کمیٹی کے تمام ارکان موجود تھے۔ اسکول مالکان بھی وہاں موجود تھے۔ انھوں نے گرم جوشی سے میڈم تبسم کو خوش آمدید کہا۔ خوش گوار ماحول میں کھانے کا آغاز کیا گیا۔
”مس تبسم! اب آپ کی والدہ کی صحت کیسی ہے؟“
کھانا کھاتے ہوئے اسکول مالک ساجد صاحب نے پوچھا۔
”جی اب وہ پہلے سے کافی بہتر ہیں۔“
میڈم تبسم نے جواب دیا۔
”ان کی بیماری اور تیمارداری کی وجہ سے آپ کچھ دنوں سے اسکول میں دیر سے آ رہی ہیں۔“
ساجد صاحب کی بیگم نے بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔
”دراصل گھر میں میرے علاوہ ان کا خیال رکھنے والا اور کوئی نہیں۔ اس لیے انھیں کھانا کھلاتے اور دوا دیتے ہوئے دیر ہو جاتی ہے۔“
مس تبسم نے وضاحت پیش کی۔
”میں نے یہ بات پرنسپل صاحبہ کو پہلے بتائی تھی۔“
”جی ہم آپ کی مجبوری سمجھتے ہیں لیکن والدین اس بات کو نہیں سمجھ رہے۔ اس کے علاوہ والدہ کی اچانک طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے آپ اکثر آدھی چھٹی لے کر چلی جاتی ہیں۔“
پرنسپل صاحبہ نے بات کی۔
”اس کے علاوہ آپ پچھلا ماہ پورا ایک ہفتہ چھٹی پر تھیں۔“
”میری والدہ بہت ضعیف ہیں اور اس ہفتے وہ بہت بیمار ہوگئی تھیں۔ وہ ہسپتال میں داخل تھیں۔“
میڈم تبسم نے پریشان لہجے میں کہا۔ وہ حیران تھیں کہ اچانک یہ کیسی گفتگو شروع ہوگئی ہے۔
”ہمیں آپ کی مشکلات کا احساس ہے اور آپ کی خدمات کا اعتراف بھی لیکن بچوں کے والدین کی شکایات بڑھتی جا رہی ہیں۔“
انتظامی کمیٹی کے ایک رکن نے کہا۔
”انھیں شکایت ہے کہ بچوں کو پوری توجہ نہیں مل پا رہی۔ بچوں کا کام ادھورا رہ جاتا ہے۔“
میڈم تبسم نے پریشان نظروں سے انھیں دیکھا۔ کھانا کھانا تو وہ اب بھول چکی تھیں۔
”ہماری نظر میں آپ کی قدر و منزلت کا اندازہ اس ایوارڈ سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔“
پرنسپل صاحبہ نے ایوارڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”لیکن ایک دفعہ عزت ملنے کے بعد اس کا تحفظ کرنا یقیناً مشکل کام ہے۔“
میڈم تبسم تو گویا آنکھیں جھپکائے بغیر ان کی باتیں سن رہی تھیں۔ پریشانی ان کے چہرے سے عیاں تھیں۔
”آج جن لوگوں کے سامنے اتنے اعزاز کے ساتھ آپ کو شیلڈ دی گئی ہے۔ اگر کل یہی لوگ شکایات کا انبار لیے دفتر میں پہنچ آئے تو جو مشکل پیش ہو گی، اس کا اندازہ یقیناً آپ کو بھی ہو گا۔“
ساجد صاحب کی بیگم نے عجیب سے لہجے میں بات کی۔ ”ویسے بھی ایک استاد کے پاس اصل کمائی تو عزت ہی ہوتی ہے۔“
”ہمیں آپ کے خلوص پر شک نہیں اور آپ کو بھی ہمارے خلوص پر شک نہیں ہونا چاہیے۔ ہم آپ کے ساتھ زبردستی نہیں کر رہے بلکہ صرف ایک مشورہ ہے کہ کیرئیر کا اختتام باعزت طریقے سے ہونا چاہیے۔“
ساجد صاحب نے بات سمیٹتے ہوئے کہا۔
”ویسے بھی ایک استاد کے لیے سب سے بڑھ کر بچوں کا مستقبل ہوتا ہے اور بچوں کی پڑھائی کا نقصان تو آپ بھی محسوس کر رہی ہوں گی۔ باقی فیصلہ آپ کا ہے۔ سوچ سمجھ کر کیجیے گا۔“
میڈم تبسم نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے اجازت چاہی۔ ان کے لیے بولنا مشکل ہو رہا تھا۔ ان کے قدموں میں لرزش تھی۔
٭
”سب لوگ ٹھیک ہی تو کہہ رہے تھے۔ امی کی خراب طبیعت کے باعث میں واقعی بچوں پر بھرپور توجہ نہیں دے پا رہی۔ مجھے ساجد صاحب کا مشورہ مانتے ہوئے استعفیٰ دے دینا چاہیے۔“
میڈم تبسم نے خود کلامی کی۔ وہ دفتر میں بیٹھے لوگوں کی باتوں سے قائل ہو چکی تھیں۔
”اسکول انتظامیہ تو بہت اچھی ہے کہ مجھے اس عزت سے نوازا اور والدین کی شکایات کے باوجود مجھے اسکول سے نہیں نکالا۔ مجھے بھی چاہیے کہ اسکول کے لیے مزید مشکلات پیدا کرنے کی بجائے یہ نوکری چھوڑ دوں اور اس سب میں امی بھی تو نظرانداز ہو رہی ہیں۔ اب میں امی کی دیکھ بھال بھی مناسب انداز میں کر سکوں گی۔ امی کی خاطر شادی نہیں کی تھی تو اب ان کی خاطر جاب چھوڑنا کون سا مشکل ہے۔ گھر چلانے کے لیے گھر پر ہی کچھ بچوں کو ٹیوشن پڑھا دوں گی۔“
میڈم تبسم نے پختہ فیصلہ کر لیا کہ اس ماہ کے اختتام پر وہ اپنا استعفیٰ پیش کر دیں گی۔
٭
”یہ کام تو بہت آسانی سے ہو گیا۔“
میڈم تبسم کے آفس سے باہر نکلتے ہی ساجد صاحب نے ہنستے ہوئے کہا۔
”مجھے امید ہے کہ میڈم تبسم جلد ہی استعفیٰ دے دیں گی۔“
”مجھے تو یقین نہیں آ رہا کہ یہ معاملہ اتنی جلدی نبٹ گیا۔ ان سینئر اساتذہ سے جان چھڑانا تو بہت مشکل ہو جاتا ہے۔“
ساجد صاحب کی بیگم نے خوشی سے کہا۔
”اور یہ میڈم تبسم تو اسکول کے لیے نرا گھاٹا ہی تھیں۔“
”اور نہیں تو کیا! ان سینئر اساتذہ کی جتنی تنخواہ ہے، اس تنخواہ میں دو مزید اساتذہ کا بندوست ہو سکتا ہے اور میڈم تبسم تو اب ریٹائرمنٹ کی عمر کو بھی پہنچنے والی ہیں۔“
انتظامی کمیٹی کے ایک رکن نے کہا۔
”پھر پرائیویٹ اسکول ایسوسی ایشن کے اصولوں کے مطابق انھیں الاؤنس بھی دینا پڑتا اور ہر ماہ کچھ نہ کچھ رقم پنشن کے نام پر بھی دینا پڑتی۔“
”لیکن اب ایسا نہیں ہو گا۔ میڈم تبسم خود ہی استعفیٰ دیں گی۔ اگر ہم انھیں نکالتے تو ایسوسی ایشن مسئلہ کھڑا کر دیتی۔ دوسرے پرائیویٹ اسکول ہمارے خلاف مہم چلا دیتے بلکہ بچوں کے والدین ہی احتجاج شروع کر دیتے کیوں کہ وہ میڈم تبسم کی پڑھائی کے معترف ہیں۔“
پرنسپل صاحبہ نے مکاری سے کہا۔
”لیکن اب جب میڈم تبسم اپنی والدہ کی بیماری کی وجہ سے خود استعفیٰ دیں گی تو ہم پر کوئی سوال نہیں اٹھا سکے گا اور ہماری نیک نیتی اور خلوص کا ثبوت تو آج کا یہ پروگرام ہی ہے۔“
”ہاہا ہاہا ہاہا! بالکل درست کہا اور میڈم تبسم اپنی سادگی اور خلوص کی وجہ سے کبھی بھی پرائیویٹ اسکول ایسوسی ایشن کے قوانین جاننے کی کوشش نہیں کریں گی کہ جن سے انھیں پتا چل سکے کہ چند سال مزید نوکری کرنے سے وہ کیسا زبردست فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔“
ساجد صاحب کی بیگم نے بھی اپنی خباثت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔
اسی وقت آفس کے سامنے سے میڈم زبیدہ گزریں۔ وہ بھی اسکول کی سینئر استانی تھیں۔ پروگرام کب کا ختم ہو چکا تھا لیکن میڈم زبیدہ اسکول میں اس وقت تک رہی تھیں کہ جب تک تمام بچوں کو بحفاظت ان کے گھر والے اسکول سے نہیں لے گئے۔ یہ ان کی ڈیوٹی نہیں تھی لیکن یہ ان کا خلوص تھا جو اُن سے ایسے کام کرواتا تھا۔
”میرے خیال میں اگلے سال ایوارڈ کے لیے میڈم زبیدہ کا نام بہتر رہے گا۔ یہ بھی کافی مخلص ہیں۔“
ساجد صاحب نے لفظ ”مخلص“ پر زور دیتے ہوئے کہا تو آفس قہقہوں سے گونج اُٹھا۔٭

Leave a Comment