تماشا دکھا کر دونوں تھک چکے تھے۔ ایک بول بول کر تھکا تھا تو دوسرا قلابازیاں کھا کھا کر اور نخرے دکھا دکھا کر تھکا تھا۔ہجوم میں سے چند افراد نے ہی اسے نوازا، باقی مفت بر نکلے۔پاس ہی آئس کریم کون والے کی دکان موجود تھی۔ بندر والے کا دل للچایا۔
”بچہ جمورا… آئس کریم کھائے گا…؟“
بندر کی کھی کھی سن کر وہ کون والے کے پاس آیا۔
”کون والے بھائی صاحب….!“
”کیا ہے…؟“
”دو کون دینا…!“
”دوسری کس کے لیے…؟“
”میرے بندر کے لیے…!“
”خود کھاؤ…اسے کیوں کھلاتے ہو…؟“
”اسے کیوں نہ کھلاؤں…؟“
”آئس کریم کون انسانوں کے لیے ہے، جانوروں کے لیے نہیں…!“
”اوپر اللہ تعالیٰ…. اور…. نیچے یہ بندر…اس کی وجہ سے تو میں کھاتا ہوں تو اسے کیوں نہ کھلاؤں…؟“
انسان کو چپ لگ گئی تھی…!
خوب صورت
”رکو…رکو…!“
”کیا ہوا…؟“
”شش…وہ دیکھو…!“
”ارے یہ کیا…؟“
”سانپ ہے اورکیا…!“
”چلو بھاگ چلتے ہیں…!“
”نہیں… نہیں… دیکھو تو سہی… کس قدر خوب صورت ہے۔ یوں جیسے قوس و قزح کے رنگ اس نے اپنا لیے ہوں… دل چاہ رہا ہے کہ بس دیکھتا ہی رہوں…. اسے پکڑ لوں… اپنے ساتھ لے جاؤں… ہمیشہ اپنے پاس رکھوں…!“
”سمجھ گیا…!“
”کیا…؟“
”جب اجل کی آمد ہوتی ہے تو اس کا پیراہن ایسا ہی ہوتا ہے… خوب صورت….!“
”کیا مطلب…؟“
”کبھی کبھی موت کا احساس مرنے کے بعد ہوتاہے…!“