جواب: الف: شبلی نعمانی کے محبوب الفاظ:
مولانا شبلی نعمانی کی کتابوں کو دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ ان کے چند جملے ایسے ہیں جن سے ان کی تحریر خالی نہ ہو گی۔ ”المامون“سے لے کر ”سیرت النبی“ تک اور مسلمانوں کی گزشتہ تعلیم سے لے کر الندوہ کے مقام تک ہر بحث میں ان کے یہ جملے اور یہ الفاظ اس قدر تواتر سے ہمارے سامنے آتے ہیں کہ ہم ان کی بدولت شبلی کی تحریروں کو بغیر اشارہ اور رہنمائی کے ہر جگہ پہنچانے کے قابل ہو جاتے ہیں۔
فخر و ناز:
شبلی کے معروف لفظوں اور جملوں کی فہرست طویل ہے۔ ان میں چند الفاظ ایسے ہیں جو ان کی شخصیت کے لیے کلید یاسراغ کا درجہ رکھتے ہیں۔ مثلاً فخر، ناز، مفاخر! یہ الفاظ مولانا کی تحریروں میں ایک خاص زندگی اور جوش پیدا کرتے ہیں۔ ان کا استعمال مختلف پیرایوں اور طریقوں سے ہوا ہے۔ عام سپاٹ انداز میں بھی اور خبریہ بیانیہ میں بھی۔ طنز اور تعریض موقع پر بھی اور تضحیک و تنفیص کی صورت میں بھی۔ چنانچہ نظر ڈالنے والے کو یہ محسوس ہو جاتا ہے کہ شبلی کے لیے یہ الفاظ بنیادی نفسیاتی اہمیت رکھتے ہیں اور ان کا ان کے ذہن ونفس کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ شباب و مستی، فخر و ناز کے علاوہ شبلی کے مرغوب لفظوں اور جملوں کا ایک سلسلہ اور بھی ہے جو بار بار ان کی تصانیف میں آتا ہے۔مثلاً شباب اور مستی،نشہ، شراب، انجمن، بہار رنگ اور داستان۔ اسی طرح چند اور الفاظ مثلا جوہر، روح اور جان ان کی پسندیدہ الفاظ معلوم ہوتے ہیں۔
رفتہ، رفتہ،آہستہ آہستہ:
ان کتابوں میں رفتہ رفتہ آہستہ آہستہ اور دیکھتے دیکھتے اس قبیل کی تراکیب بھی کچھ کم نہیں۔
تم کا استعمال:
اسی طرح جب ہم ان کی کتابوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ہر صفحے پر پر ذیل کے جملے ترکیبیں اور الفاظ بتکرار موجود ہوتے ہیں:
1۔تم جانتے ہو، تم کو معلوم ہے، تم نے پڑھا ہوگا، تم نے دیکھ لیا۔
2۔ تم غور کرو،انصاف کرو،قیاس کرو۔
3۔تعجب ہے،عجب بات ہے،تعجب در تعجب یہ ہے۔
4۔راز طلسم نکتہ نکتہ شناس۔
5۔ قوم کی بد مذاقی کا یہ عالم ہے،قوم کی بد مذاقی اب اس حد تک پہنچ چکی ہے وغیرہ۔
ان تکیہ ہائے کلام کی اہمیت میں سمجھتا ہوں کہ ان الفاظ کی یہ تکراربلا سبب اور محض اتفاقی نہیں بلکہ ان میں مصنف کی سیرت اور شخصیت کے بہت سے نقش صورت پذیر ہوتے ہیں۔ اگر شبلی کے اسلوب اور شخصیت کا مختصر جائزہ مطلوب ہو تو بھی چند الفاظ مفصل تجزیہ کا بدل بن سکتے ہیں۔ کیونکہ یہی ان کے منصفانہ لب و لہجہ کے کے امتیازی نشانات ہیں۔ ہم ان سے شبلی کو پہچان سکتے ہیں۔ یہ شبلی کی آواز ہے جس کے ذریعے ان کی شخصیت کا خارجی طور پر ہم سے تعارف ہونا چاہیے اور ان کے اسلوب کے بعض خارجی او صاف بھی ہم پر واضح ہوتے ہیں مگر اسلوب اس سے وسیع تر اور مکمل تر چیز ہے۔
احساس عظمت کا اثر اسلوب پر:
پیداوار ہے یہ احساس جب کسی مقصد عظیم کے ساتھ مل جاتا ہے تو مصنف کے اظہاریت میں غیر معمولی جوش اور قدرت پیدا کر دیتا ہے شبلی کے احساس اس فخر برتری کا ایک بڑا سرچشمہ ان کے ہاں لفظی اثرات ہیں۔ راجپوتوں کو اپنی نسلی روایات اور اسلاف کے کارناموں پر بڑا ناز ہوتا ہے۔ غیرت و حمیت کا ایک مخصوص تصور اور ان بان اور کچھ کرکے دکھانے کی شان راجپوتوں کی اپنی نسلیں روایات پر فخر و ناز ایک راجپوت کو ورثے میں ملتا ہے۔ مولانا شبلی نعمانی نسلاً راجپوت تھے۔ اس لئے قدرتی طور پر یہ نسل یہ اثرات ان کی فطرت میں پایا جاتا ہے۔ ان کی طبیعت میں میں زودحسی اور احساس فخر و ناز بھی بہت حد تک اس خاص کر کے طفیل سے ہے اور حق یہ ہے کہ ان عوامل و اثرات میں ان کے منصفانہ رجحانات کو متعین کرنے میں بھی بڑا حصہ لیا ہے۔ چناچہ انہوں نے اسلاف کے قابل فخر تاریخ کو اپنا موضوع قرار دے کر اپنے لیے جس میدان عمل کا انتخاب کیا وہ بھی درحقیقت ان کے ذہن کے اور فطرت کے تقاضے کے عین مطابق ہے۔
شاعری کی اہمیت:
شبلی نے مختلف مثالوں سے شاعری کی اہمیت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے نزدیک شاعری کا منبع ادراک نہیں بلکہ احساس ہے۔ اس کے بعد وہ ادراک اور احساس کی وضاحت کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ:
”خدا نے انسان کو مختلف اعضا اور مختلف قوتیں دی ہیں۔ ان میں سے دو قوتیں تمام افعال اور ارادات کا سر چشمہ ہیں، ادراک اور احساس، ادراک کا کام اشیا کا معلوم کرنا اور استدلال اور استنباط سے کام لینا ہے۔ ہر قسم کی ایجادات، تحقیقات، انکشافات اور تمام علوم و فنون اسی کے نتائج عمل ہیں۔ احساس کا کام کسی چیز کا ادراک کرنا یا کسی مسئلے کا حل کرنا یا کسی بات پر غور کرنا اور سوچنا نہیں ہے۔ اس کا کام صرف یہ ہے کہ جب کوئی موثر واقعہ پیش آتا ہے تو وہ متاثر ہو جاتا ہے، غم کی حالت میں صدمہ ہوتا ہے، خوشی کی حالت میں سرور ہوتا ہے، حیرت انگیز بات پر تعجب ہوتا ہے، یہی قوت جس کو انفعال یا فیلنگ سے تعبیر کر سکتے ہیں شاعری کا دوسرا نام ہے، یعنی یہی احساس جب الفاظ کا جامہ پہن لیتا ہے تو شعر بن جاتا ہے۔“
متاثر ہونے کی صلاحیت:
شبلی نعمانی کہتے ہیں کہ انسان متاثر ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مختلف واقعات اس پر اثر کرتے ہیں اور اس طرح اس پر مختلف کیفیات طاری ہوتی ہیں۔ ان کے نزدیک یہ کم و بیش ایک ایسی کیفیت ہے جو شیر کو گرجنے، مور کو چنگھاڑنے، کوئل کو کوکنے، مور کو ناچنے اور سانپ کو لہرانے پر مجبور کرتی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شاعری میں جذبات کی اہمیت کے قائل ہیں۔ جذبات کے بغیر شاعری کا وجود نہیں ہوتا اور وہ جذبات سے پیدا ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہیجان اور ہنگامہ برپا کرنا نہیں بلکہ جذبات میں زندگی اور جولانی پیدا کرنا ہے۔ شبلی کے نزدیک شاعری کے لیے جذبات ضروری ہیں۔
عالم کی حیثیت:
شبلی کے تصور کے اعتبار سے تمام عالم ایک شعر ہے۔ زندگی میں ہر جگہ شاعری بکھری پڑی ہے اور جہاں شاعری موجود ہے وہاں زندگی ہے۔ ایک یورپین مصنف کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ”ہر چیز جو دل پر استعجاب یا حیرت یا جوش اور کسی قسم کا اثر پیدا کرتی ہے، شعر ہے۔” اس بناپر فلک نیلگوں، نجمِ درخشاں، نسیم سحر، تبسم گل، خرام صبا، نالہ بلبل، ویرانی دشت، شادابی چمن، غرض تمام عالم شعر ہے” اور ساری زندگی میں یہ شعریت پائی جاتی ہے۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شبلی کے تنقیدی نظریات شاعری کے جمالیاتی پہلو پر زور دیتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر سید عبد اللہ ”اشاراتِ تنقید” میں لکھتے ہیں کہ:
”یہ تو ظاہر ہے کہ شبلی کی تنقید میں اجتماعی اور عمرانی نقطہ نظر بھی ہے مگر اس کے باوجود ان کا مزاج، جمالیاتی اور تاثراتی رویے کی طرف خاص جھکاؤ رکھتا ہے۔“
شاعری کا مقام:
شبلی کے نزدیک شاعری تمام فنونِ لطیفہ میں بلند تر حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ تاثر کے لحاظ سے بہت سی چیزیں مثلاً موسیقی، مصوری، صنعت گری وغیرہ اہم ہیں مگر شاعری کی اثر انگیزی کی حد سب سے زیادہ وسیع ہے۔ شاعری کے سلسلے میں وہ محاکات کا ذکر کرتے ہیں اور پھراس کی وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
”محاکات کے معنیٰ کسی چیز یا کسی حالت کا اس طرح ادا کرنا ہے کہ اس شے کی تصویر آنکھوں میں پھر جائے۔ تصویر اور محاکات میں یہ فرق ہے کہ تصویر میں اگرچہ مادی اشیا کے علاوہ حالات یا جذبات کی بھی تصویر کھینچی جا سکتی ہے۔ تاہم تصویر ہر جگہ محاکات کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ سینکڑوں گوناگوں حالات و واقعات تصور کی دسترس سے باہر ہیں۔“
الفاظ کی نوعیت:
وہ صرف محاکات کی تعریف ہی پر بس نہیں کرتے بلکہ محاکات کن کن چیزوں سے قائم ہوتی ہے۔ اس کی بھی تفصیل بیان کرتے ہیں۔ اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے تخیل، جدت ادا اورالفاظ کی نوعیت، کیفیت اور اثر کی بات کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک لفظ جسم ہیں اور مضمون روح ہے۔ اس مسئلے پر اہل فن کے دو گروہ ہیں ایک لفظ کو ترجیح دیتا ہے اور دوسرا معنیٰ کو۔ شبلی کا زور لفظ پر زیادہ ہے۔ لفظ اور معنی کی بحث میں لفظوں کی اقسام اور ان کی نوعیت کی صراحت کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
”الفاظ متعدد قسم کے ہوتے ہیں، بعض نازک، لطیف، شستہ، صاف، رواں اور شیریں اور بعض پر شوکت، متین، بلند، پہلی قسم کے الفاظ عشق و محبت کے مضامین ادا کرنے کے لییموزوں ہیں، عشق اور محبت انسان کے لطیف اور نازک جذبات ہیں، اس لیے ان کے ادا کرنے کے لیے لفظ بھی اسی قسم کے ہونے چاہئیں۔“
لفظ اور معنی:
لفظ اور معنیٰ کی بحث نہایت دلچسپ ہے۔ فصیح اورمانوس الفاظ کا اثر، سادگی ادا، جملوں کے اجزا کی ترکیب پر اپنی آرا کا اظہار کرتے ہوئے شبلی اس کے اثر کی بھی بات کرتے ہیں۔ ان کا نظریہ یہ ہے کہ خیال یا مضمون کتنا ہی عمدہ کیوں نہ ہو اگر لفظ عمدہ نہیں ہوں گے تو خیال کا اثر جاتا رہے گا۔ اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے وہ آب زم زم کی مثال کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں۔ اگر آپ کو کوئی گندے پیالے میں آبِ زم زم پینے کو دے تو آپ آبِ زم زم کے تقدس کی وجہ سے پانی تو پی لیں گے لیکن آپ کی طبیعت میلی ہو جائے گی۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ اس مثال میں پیالہ لفظ کی نمائندگی کر رہا ہے اور پانی مضمون کی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ خیال کی عمدگی کے ساتھ ساتھ الفاظ کا عمدہ ہونا بھی ضروری ہے۔
شبلی کے استعارات و کنایات:
مولانا شبلی کی طبیعت میں جلد متاثر ہونے اور بے حد متاثر ہونے کا کتنا میلان موجود تھا۔ زندگی کی شدید شوخ مفرد اور انتہائی حالتوں اور کیفیتوں کے وہ بے حد دلدادہ تھے۔ شوخی، طراری کی جان اور فوری اثر ان کے دل و دماغ کا خاصہ اولین معلوم ہوتا ہے۔ ان کا تخیل دراصل اس رجحان فطری کے زیر اثر مبالغہ و اطراف کی وہ سورتیں اور تصویریں تلاش کرتا ہے جو خود مصنف کی پرجوش ہیجان پسند طبیعت کی پیداوار ہونے کے ساتھ ساتھ ان کے لئے بھی جو چنگیزی اور ہیجان خیزی کا سامان بہم پہنچاتی ہیں۔ مولانا محمد حسین آزاد بھی محاورات اور کنایات و استعارات سے اپنی تحریر میں بڑا اثر پیدا کرتے ہیں۔مگر ان کی تحریروں کی فضا میں سکون سہل انگاری اور ٹھہراؤ ہوتا ہے۔وہ اختصار کی بجائے پھیلاؤ اور تفصیل کو پسند کرتے ہیں ان کا دماغ مناسبتوں اور مشاہدوں کے ذریعے وہ تصویر کو وسیع ترین حدود تک لے جاتا ہے ہے اور مشابہت اور مناسبت کی کی تلاش میں کہیں سے کہیں نکل جاتا ہے۔ان کا انداز ایک داستان گو کا انداز ہے یعنی بات سے بات پیدا کرنا نا اور مضمون کے پھیلاؤ کے ذریعے دلچسپی پیدا کرتے جانا۔مگر شبلی نعمانی میں کا ذہن اس پھیلاؤ کا متحمل نہیں ہوسکتا اعجاز و تفصیل سے شدید رغبت ہے۔
اگر آزاد کہانی کے انداز میں میٹھی میٹھی باتوں تو کو پھیلا کر بیان کرتے ہوئے قارئین کو محظوظ کرتے ہیں تو مولانا شبلی اپنے کڑک دار محاوروں کے ذریعے دل میں جوش پیدا کرتے ہیں۔مولانا آزاد زندگی کے لطیف اور سبک تاثرات سے قاری کو اپنا ہم نشین اور ہم خیال بناتے ہیں مگر مولانا شبلی اس کے ذہن پر طوفانی حملہ کر دیتے ہیں اور ایک حلقہ بول کر اس کے ذہن کو نہ صرف مرعوب کر دیتے ہیں بلکہ مسخر بھی کر لیتے ہیں۔
مخصوص محاورات:
مولانا شبلی نعمانی کے محاورات و استعارات میں جو تصویر بنتی ہیں ان میں معتدل حالتیں اور کیفیتیں تقریباً مفقود ہوتی ہیں۔ وہ اس زوراور اس شدت کے ساتھ آتی ہیں کہ قاری ان کے غیر معتدل ہونے کے متعلق سوچنے کی فرصت ہی نہیں پاتا کیونکہ اس طوفانی حملہ کی قوت اور شدت کے مقابلے میں قوت مفکرہ مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے۔ مولانا شبلی نعمانی کے قلم کو جو چنگیز اور ہنگامہ آفرین مضامین کے ادا کرنے میں بے حد مسرت حاصل ہوتی ہے، ان کی کتابوں کے بہترین اور مؤثر ترین حصے وہ ہیں جن کا تعلق ہنگاموں اور انقلابوں سے ہے یا پھر وہ ہوتے ہیں جن میں فخر و افتخار یار کے پہلو نمایاں ہیں پر مخصوص محاورات اور کنایات کا استعمال بکثرت اور بے ساختہ ہوتا ہے۔ توڑ، پھوڑ اور ہنگامہ شکست و ریخت فوری بربادی کے جتنے عمدہ نقشے اور تصویریں ان کے محاوروں سے پیدا ہوتی ہیں، اردو کے کسی دوسرے مصنف کے ہاں نہیں ملتی۔
ایجاز و اختصار:
مولانا آزاد کے ذہن کو داستان کہنے اور بعد میں بات پیدا کرنے بلکہ غیر ضروری مناسبتوں اور مشابہتوں کے ذریعے مضمون کو پھیلانے اور زیادہ رنگین بنانے کی عادت تھی جب کہ شبلی کا ذہن اس کا متحمل نہ تھا۔ وہ اعصابی طور پر اس طول کو گوارا کرنے کے اہل نہ تھے۔ ان کا ذہن اس معاملے میں کم فرصت تھا۔ آزاد جس مضمون کو ایک صفحے میں ادا کرتے تھے، شبلی کا قلم اس کے لیے شاید ایک آدھ سطر سے آگے بڑھنا بھی پسند نہیں کرتا تھا۔ ہمیشہ مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ تسخیر ذہن کا جو کام شبلی اپنی چند مختصر سطروں میں کرسکتے ہیں، آزاد اس طویل عبارتوں میں بھی نہیں کر سکتے۔ لطف بیان کی بات جدا ہے مگر اس سے کسے انکار ہے کہ آزاد اپنی تمام تفاصیل اور پھیلاؤ کے باوجود اتنے اچھے مورخ نہیں مانے گئے جتنا ہم مولانا شبلی کو مانتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مولانا آزاد کی بیشتر تحریروں اور ان کے نقشوں کی جزئیات کو دیکھ کر ذہن آسودا ہوکر ان کے بیانات کو ایک خیالی داستان سمجھ کر اونگھنے لگتا ہے۔ مگر مولانا شبلی کے اعجاز و اختصار جس میں ان کی مناسب محاورہ بندی بڑی قوت اور شدت پیدا کرتی ہیں ان کے بیان کو یقینی بنا دیتا ہے کہ ہم تجزیے کے بعد بھی ان کی صداقت کا انکار کرنے کی جرات نہیں کر سکتے۔
اطناب سے بچاؤ:
مولانا شبلی کے بیانات کی بہت بڑی خصوصیت بھی اعجاز و اختصار ہے۔ اختصار ان کے بیان میں بڑا حسن پیدا کرتا ہے۔ وہ بے ضرورت جزئیات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔اور اطناب سے بچ جاتے ہیں جو مولانا آزاد کی خیالی تصویر کشی کا خاصہ ہیں۔ ان کی نثر میں ایجاز کی تکمیل کا ایک ذرائع روزمرہ محاورہ کا استعمال ہیں۔ وہ اور ان کی عبارت میں چستی اور چمک پیدا کرتا ہے مگر وہ جوش کی حالت میں مبالغہ و اطناب کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ مثلاً شعرالعجم کی یہ عبارت ملاحظہ ہو:
”شاعری سے اگر صرف خاص مقصود ہو تو مبالغہ کام آ سکتا ہے لیکن وہ شاعری جو ایک طاقت ہے جو قوموں کو زیر و زبر کر سکتی ہے، جو ملک میں ہلچل ڈال سکتی ہے، جس سے عرب قبائل میں آگ لگا دیتے تھے، جس سے توجہ کے وقت در و دیوار کے آنسو نکل پڑتے تھے، وہ وقت اور اصلیت سے خالی ہو کر تو کچھ کام نہیں کر سکتی۔“
اس بیان میں جو اطناب ہے وہ واضح ہے۔ مصنف کا مقصد اسی قدر ہے کہ شاعری میں واقعات اور اصلیت ہونی چاہیے ورنہ وہ بیکار ہے مگر طبیعت کی طبعی جو ش پسندی اور مقصد کے اعتبار سے دانستہ جوش انگیزی نے مصنف کے طریق اظہار کو معمولی سے زیادہ طویل بنا دیا ہے۔
……٭……٭……٭……