ندی میں بہتے پانی کا شور کسی سنگیت کا احساس دلا رہا تھا۔ شفاف پانی پر جب سورج کی کرنیں پڑتیں تو اُس میں ہیرے کی سی چمک آ جاتی۔ آس پاس موجود سبز پوش پہاڑ، پرستان کے حسن کو چار چاند لگا رہے تھے۔ اُسی ندی کے کنارے ایک پری اُداس بیٹھی تھی۔ اُس کی نظریں بہتے پانی پر ٹکی تھیں مگر دھیان کہیں اور تھا۔ ندی کنارے آ کر اکیلے بیٹھنا اُس کا معمول تھا۔ پہلے وہ یوں اُداس کبھی نہ بیٹھتی تھی بلکہ وہ تو بڑی شوخ طبع تھی۔ وہ اپنی بے ضررشرارتوں سے سہیلیوں کو خوب ہنسایا کرتی تھی۔ وہ پرستان کی رونق تھی۔ سبھی پریاں اُس کے گن گاتی تھیں۔ پھر ایک شرارت نے اُس کا مذاق بنا دیا اور وہ ہیر پری سے کالی پری بن گئی۔اُس کے سفید اور چمکیلے پروں پر کالک چڑھ گئی۔اُس کی جادوئی چھڑی بھی اُس سے لے لی گئی۔سب کو ہدایت کی گئی کہ اسے ہیر پری کے بجائے کالی پری کہہ کر پکارا جائے۔ اُس کی زندگی میں تو جیسے خزاں آ گئی۔پرستان میں بدصورتی کی کوئی گنجائش نہیں تھی،اس لیے دوسری پریاں اُس سے دوری اختیار کرنے لگیں۔ وہ سہیلیوں کے پاس بیٹھنے لگتی تو سب منہ بناتے ہوئے اُٹھ کر چل پڑتیں۔ اُس کا دل کٹ کر رہ جاتا۔ وہ بچوں کی طرح رونے لگتی۔ پورے پرستان میں زرگل پری ہی اُس کی ہمدرد تھی۔ وہ ملکہ پری کی بیٹی تھی۔ ایک وہی یہ جانتی تھی کہ اُس شرارت میں کالی پری کاکوئی قصور نہ تھا مگر ڈر کے مارے اُس نے حقیقت کسی کو نہ بتائی تھی،ورنہ وہ عتاب کا نشانہ بن سکتی تھی۔
پرستان میں دربار لگا تھا۔ ملکہ پری پوری شان کے ساتھ سنگھاسن پر بیٹھی تھی۔ تمام پریوں کو ایک خاص ضیافت کے لیے یہاں بلایا گیا تھا۔یہ خاص ضیافت سال میں ایک بار کی جاتی تھی۔ اِس موقع پر سال بھر کا حساب لگایا جاتا تھا۔ پرستان کی حفاظت اور اس کی بہتری کے لیے سوچ بچار کی جاتی تھی۔ سبھی پریاں حاضر تھیں لیکن کالی پری کو اس دربار میں آنے سے منع کیا گیا تھا۔ وہ ندی کنارے اُداس بیٹھی پانی کی لہروں میں کھوئی ہوئی تھی۔ کھانے سے قبل ملکہ پری نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
”دربار میں آپ کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ اِس سال پرستان کے حفاظتی حصار میں کچھ گڑبڑ محسوس ہوئی ہے۔ خطرناک دیوؤں کے چند حملوں سے پرستان کو کافی نقصان پہنچا ہے۔ وقفے وقفے سے پریاں بھی غائب ہونے لگی ہیں، جنھیں یقیناً دیو ہی اغوا کر رہے ہیں۔ دن بہ دن یہ حملے بڑھتے جا رہے ہیں۔ یہ پرستان آپ کا ہے، اس کا نقصان آپ کی زندگیوں میں تباہی لانے کا سبب بن سکتا ہے۔ پرستان کو اِس پریشانی سے بچانے کے لیے کسی کے پاس مناسب تجویز ہے تو ضرور پیش کرے۔“
چند پریوں نے تجاویز پیش کیں مگر ملکہ پری اُن سے متاثر نہ ہو سکی۔ اتنے میں زرگل پری بولی:
”ملکہ عالیہ! میرے پاس ایک ایسی تجویز ہے جو پرستان کو اس مشکل سے یقینی نجات دلا سکتی ہے۔“ زرگل پری نے سب کے سامنے امی کہنے سے گریز کیا تھا۔
”ہاں زرگل! بولو، کیا تجویز ہے؟“ ملکہ پری مسکراتے ہوئے بولی۔
”میں اِس شرط پر تجویز بیان کروں گی کہ کالی پری کو دربار میں بلایا جائے۔“
زرگل کی یہ بات سنتے ہی ملکہ پری غصے سے کانپ اُٹھی۔
”نہیں! یہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔ کالی پری ہمارے ساتھ بیٹھنے کے لائق نہیں ہے۔“
”اگر معاملہ پرستان کی حفاظت کا ہو، تب بھی نہیں؟“ زرگل فوراً بولی۔
”ہونہہ، حفاظت! وہ تو پرستان کا جنازہ نکالنے پر تلی تھی۔ وہ تو شکر ہے، عین وقت پرمیں نے اپنی جادوئی چھڑی اُس سے جھپٹ لی۔“
”پرستان کا جنازہ وہ نہیں، میں نکالنے لگی تھی۔ آپ کی جادوئی چھڑی میں نے چرائی تھی اور اُس پر منتر بھی میں نے ہی پڑھے تھے۔“ زرگل پری کی اِس بات پر دربار میں ہلچل مچ گئی۔ پریاں آپس میں کھسر پسر کرنے لگیں۔ کسی کو یقین نہیں آیا تھا کہ اتنی چھوٹی پری نے جادوئی چھڑی کو منتر کے زیرِ اثر کیا تھا۔
”یہ کیا کہہ رہی ہو تم زرگل؟ میں نے خوداِن آنکھوں سے دیکھا تھا کہ وہ چھڑی کالی پری کے ہاتھ میں تھی۔ وہ جانتی تھی کہ جب کوئی پری، ملکہ پری کی جادوئی چھڑی استعمال کرے گی تو پرستان کے لیے یہ برا ثابت ہو سکتا ہے، پھر بھی اُس نے میری چھڑی پر ہاتھ ڈالا۔“
”یہ سچ ہے کہ جب آپ نے دیکھا، اُس وقت چھڑی کالی پری کے ہاتھ میں تھی۔ ہر طرف سیاہ دھواں پھیلا ہوا تھا۔ پرستان جلتا ہوا دکھائی دے رہا تھا، مگر وہ سب کالی پری نے نہیں کیا تھا۔“
”بتاؤپھر کس نے کیا تھا؟“ ملکہ پری الجھائی ہوئی بولی۔
”میں آج سب کچھ بتاؤں گی، پہلے کالی پری کو دربار میں بلایا جائے۔“ زرگل بضد تھی۔
ملکہ پری نے دو پریوں کو حکم دیا کہ وہ کالی پری کو تلاش کرکے فوراً دربار میں لائیں۔ دونوں پریاں حکم کی تعمیل کرتی ہوئیں پرستان میں بادلوں کی طرح اُڑتے ہوئے کالی پری کو ڈھونڈنے لگ پڑیں۔ جلد ہی اُن کی تلاش ختم ہو گئی۔ انہیں ندی کے کنارے، کالی پری اُداس بیٹھی نظر آئی۔ جب انہوں نے ملکہ پری کا حکم سنایا تو کالی پری کو یقین نہ آیا۔ بار بار تصدیق کرنے کے بعد کالی پری اُن کے ساتھ چل دی۔ دربار میں پہنچ کر کالی پری، ملکہ پری کے قریب ہونے لگی تو اُسے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا گیا۔ وہ پیچھے ہٹ کر بیٹھ گئی۔
”ہاں، زرگل! اب کہو!“ ملکہ پری نے حکم جاری کیا۔اس حکم کے ساتھ ہی دیگر پریاں متوجہ ہو گئیں۔وہ بھی اصل بات جاننا چاہتی تھیں۔
کالی پری کو دربار میں دیکھ کر زرگل خوشی سے مسکرائی، پھر بولی:
”اُس دن آپ سو رہی تھیں۔ میری نظر آپ کی چھڑی پر پڑی، جسے آپ نے اپنے سرہانے رکھا ہوا تھا۔ میں نے چپکے سے چھڑی اُٹھائی اور اُس سے کھیلنے لگی۔ کھیلتے کھیلتے مجھے شرارت سوجھی کہ کیوں نہ اس پر منتر آزمایا جائے۔ مجھے صحیح منتر نہیں آتا تھا، بس الٹا سیدھا پڑھنے لگی۔ اچانک چھڑی تھرتھرائی، پھر اُس میں سے شعلے نکلنے لگے۔ یوں لگا جیسے پھلجھڑیاں چھوٹ رہی ہوں۔ مجھے یہ بہت دل چسپ کھیل محسوس ہوا۔ میں نے منتر جاری رکھے۔ چنگاریاں اور آگ کے گولے سے نکلتے رہے۔ اچانک فضا میں زوردار گڑگڑاہٹ ہوئی۔ کچھ دیر میں سیاہ دھواں سا چھانے لگا۔ جب دھواں چھٹا تودیکھتے ہی دیکھتے ایک بدشکل دیو سامنے آ گیا۔وہ دیو بہت خوف ناک اور طاقت ور دکھائی دے رہا تھا۔ پہلے وہ غرایا، پھر چھڑی پر جھپٹا۔ میں گھبرا گئی اور ڈر کے مارے کانپنے لگی۔ اس سے پہلے کہ وہ مجھ سے چھڑی چھینتا، کالی پری نے اُسے للکارا۔ کالی پری کے یوں اچانک سامنے آ جانے سے اُسے شدید غصہ آیا۔ وہ گرجتے ہوئے بولا، ”جب بھی پرستان کا حفاظتی حصار کمزور پڑتا ہے تو مجھے حملہ کرنے کا حکم ملتا ہے کیوں کہ میں کوہِ قاف کا سب سے خطرناک دیو ہوں مگر میرا ہر حملہ تم ناکام بنا دیتی ہو۔ آج میں تم سے سارے بدلے لوں گا۔ تمہارے پاس لاکھ طاقت سہی، مگر آج میں تمہیں بھسم کر دوں گا۔ کیوں کہ آج پرستان کا حفاظتی حصار بہت کمزور ہو چکا ہے۔ اپنی آنکھوں کے سامنے تم پرستان کو جلتا ہوا دیکھو گی۔“
وہ بھیانک دیو قہقہے لگا رہا تھا اور میں آپ کی چھڑی ہاتھ میں لیے زارو قطار رو رہی تھی۔میں سمجھ گئی تھی کہ میری شرارت نے پرستان کا حفاظتی حصار کمزور کیا ہے۔ پھر دیو نے حملے کرنا شروع کر دیے۔ کالی پری نے جوابی حملے کیے مگر جلد ہی دیو حاوی ہونے لگا۔ کالی پری کے سبھی حملے ناکام ہو رہے تھے۔ یہ پیچھے ہٹنے لگی۔ دیو نے اپنا بڑا داؤ استعمال کرتے ہوئے بھرپور وار کیا۔کالی پری نے دفاعی انداز میں اپنے پر آگے کیے تو پروں کو آگ نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ کالی پری چیخنے لگی۔ اُس کے پر جل کر سیاہ ہو رہے تھے اور دیو قہقہے لگا رہا تھا۔پھر دیو میری جانب بڑھا۔میں سہمی ہوئی تھی۔مجھے اور کچھ نہ سوجھا تو آپ کی چھڑی کو کالی پری کی جانب اچھال دیا۔ کالی پری نے منتر پڑھ کر وار شروع کیے تو دیو بوکھلا گیا۔ اُس کا ہر حملہ اُلٹا اثر کرنے لگا۔ وہ دردناک انداز میں چیخنے چلانے لگا۔ جب دیو کو یقین ہو چلا کہ وہ سامنا نہیں کر سکتا تو وہ یہ کہتے ہوئے بھاگ پڑا۔
”ملکہ پری! تم نے میرے ساتھ دھوکا کیا ہے۔ میں جا رہا ہوں مگر یاد رکھنا! میں جلد لوٹ کے آؤں گا اور تمہارا پرستان تم سے چھین لوں گا۔“
ملکہ پری! یہ تھی اصل بات۔ دیو کے اوجھل ہوتے ہی آپ آ گئیں۔ اُس وقت کالی پری کے ہاتھ میں آپ کی چھڑی تھی۔ پرستان کی فضا میں کالا دھواں چھایا ہوا تھا۔ شرارت میری تھی مگر کالی پری کو مجرم سمجھا گیا۔ مجھے شرمندگی ہے کہ میرے کیے کی سزا کالی پری کو بھگتنا پڑی۔ میں ڈر گئی تھی امی جی!“
زرگل نے ساری تفصیل سنائی تو مجمعے میں خاموشی چھا گئی۔ سب کی نظریں کالی پری کی جانب اُٹھ گئیں۔ کالی پری سر جھکائے بیٹھی تھی۔ ملکہ پری نے بھرپور غصے سے زرگل پری کی جانب دیکھا۔اُس کے بعدوہ اپنے سنگھاسن سے اُتری اور چلتے چلتے کالی پری کے پاس پہنچ گئی۔
”ہیر پری! میں نے انجانے میں تمہارے ساتھ بہت ظلم کر دیا۔ تم نے وضاحت دینے کی کوشش کرنا چاہی مگر میں نے تمہارے لب سی دیے۔ تم نے اپنے پروں کے حسن کو پرستان پر قربان کر دیا۔ یہ پرستان کی حفاظت میں ہمیشہ کے لیے سیاہ ہو گئے۔ مجھے اپنے کیے پر بہت شرمندگی ہے۔ مجھے معاف کردو۔“
”ملکہ پری! مجھے کوئی افسوس نہیں ہے۔ میرا کام صرف پرستان کی حفاظت کرنا ہے جو میں ہر حال میں کروں گی۔ یہ کالے پر مجھے اپنے فرض سے نہیں روک سکتے۔مجھے اچھا لگے گا کہ سب مجھے کالی پری ہی کہہ کر پکاریں۔“
ابھی یہ باتیں جاری ہی تھیں کہ فضا میں زوروں کی گڑگڑاہٹ ہوئی۔ کچھ دیر کے لیے پرستان میں جیسے اندھیرا چھا گیا۔ جب منظر صاف ہوا تو پریوں کی چیخیں نکلنے لگیں۔ سامنے دیوؤں کا ایک ٹولہ موجود تھا۔ سب سے آگے وہی خطرناک دیو تھا جس نے کالی پری کو للکارا تھا۔ بہت سی پریاں دیوؤں کو دیکھتے ہی ڈر کے مارے اِدھر اُدھر بھاگنے لگیں۔کچھ نے ہمت دکھائی اور وہیں جمی رہیں۔
”ملکہ پری!آج تمہارے پرستان پر ہمارا قبضہ ہو جائے گا۔ ہمت ہے تو روک کر دکھانا۔ہاہاہاہا….!“ اُسی دیو نے ملکہ پری کو للکارا۔
”ابھی فیصلہ ہو جائے گا۔“ یہ کہتے ہی ملکہ پری نے منتر پڑھا اور چھڑی دیو کی جانب لہرائی۔ ایک سلگتا ہوا گولہ نکلا اور سیدھا دیو سے جا ٹکرایا۔ دیو کے قدم ڈگمگائے مگر جلد ہی وہ سنبھل گیا۔ اُس نے جوابی کاروائی میں اپنے ہاتھوں کو گول گول گھمایا، جس سے آگ کا بڑا سا گولہ نکلا اور ہوا میں لڑھکتا ہوا ملکہ پری تک پہنچا۔ ملکہ پری نے اس داؤ کا دفاع بڑی مشکل سے کیا۔ اس پر ملکہ پری کی بہت سی طاقت ضائع ہوئی۔ دیو بھانپ گیا کہ اب ملکہ پری اندر سے ہمت ہار چکی ہے۔ وہ بلندآواز میں قہقہے میں لگانے لگا۔ اُس کے چیلے بھی اپنے گرو کا ساتھ دینے لگے۔ ملکہ پری نے مایوس بھری نظروں سے پرستان کی جانب دیکھا، پھر اُس کی نگاہ کالی پری سے ٹکرائی۔ وہ اشارے میں اُس سے چھڑی مانگ رہی تھی۔ ملکہ پری نے اپنی چھڑی کالی پری کی جانب اچھالی۔ کالی پری نے کمال پھرتی سے چھڑی ہاتھوں میں لی اور دیو کو للکارا۔
”اے ظالم دیو! تم نے پرستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ کر موت کو دعوت دی ہے۔ اُس دن بھی تم بچ کر بھاگ نکلے تھے، مگر آج تمہارا خاتمہ اسی پرستان میں ہوگا۔“
کالی پری کو دیکھتے ہی دیو آپے سے باہر ہو گیا۔ اُس نے ایک کے بعد ایک وار کرنا شروع کیے۔ کالی پری اُس کے ہر وار کو ناکام بنا رہی تھی۔ دیو سٹپٹا کر رہ گیا۔ اُس نے اپنے چیلوں کو بھی حملہ کرنے کا حکم دیا۔ کالی پری نے بھی دفاع کے ساتھ جوابی حملے شروع کر دیے۔ دیو کے چیلوں نے جب کالی پری کے خطرناک حملے دیکھے تو بزدلی سے بھاگ پڑے۔دیگر پریوں نے انہیں جانے نہ دیا۔ وہ چند تھے، پریاں سینکڑوں میں تھیں۔ جلد ہی وہ زندگی کی بازی ہار گئے۔ کالی پری پورے جوش کے ساتھ ظالم دیو پر حملے کر رہی تھی۔ وہ بھی ان حملوں سے ڈر گیا تھا۔ اُس نے واپس کوہِ قاف جانے کا ارادہ ہی کیا کہ کالی پری نے پوری طاقت سے اُس پر وار کر دیا۔ دیو اُس وار کی تاب نہ لا سکا اور موقع پر ہی ڈھیر ہو گیا۔ اُس کے مرتے ہی پرستان میں دھواں چھا گیا۔ یہ دھواں سفید رنگ کا تھا، جس نے پرستان میں چھائے گند کو بالکل صاف ستھرا کر دیا۔
سبھی پریاں پھر سے اکٹھی ہو گئیں۔ دربار اُسی انداز میں سج گیا۔کالی پری نے ملکہ پری کو اُس کی چھڑی واپس کر دی۔ ملکہ پری سنگھاسن پر پھر سے بیٹھی اور پریوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
”! میں نے پرستان کی بہتری کے لیے ایک فیصلہ کیاہے کہ اِس سنگھاسن پر آج سے میری جگہ کالی پری بیٹھے گی۔ اب سے یہ آپ کی ملکہ ہوگی۔ مجھے امید ہے کہ کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہوگا۔“
پریوں نے جب یہ سنا تو خوشی سے کھل اُٹھیں۔ وہ حقیقت جان چکی تھیں، اس لیے انہیں کیا اعتراض ہو سکتا تھا۔ کالی پری نے لاکھ انکار کیا مگر ملکہ پری نے اپنی چھڑی دیتے ہوئے اُسے سنگھاسن پر بٹھا دیا۔ ایسا پرستان میں پہلی بار ہوا تھا کہ ایک کالی پری کو ملکہ پری کا درجہ ملا ہو۔ سچ تو یہ تھا کہ ظاہری کالا رنگ من کے رنگ پر اثرانداز نہیں ہواتھا۔ سب سے زیادہ خوشی زرگل پری کو تھی۔ وہ چہکی، پھر شرمندگی سے بولی:
”میری نئی ملکہ پری! مجھے کوئی سزا تو نہیں ملے گی نا؟“
”ہاں، کیوں نہیں! تمہیں ضرور سزا ملے گی۔تمہاری سزا یہ ہوگی کہ تمہیں مجھ سے تربیت لینا ہو گی تا کہ تم پھر سے اُلٹے سیدھے منتر نہ پڑھنے لگو۔“ کالی پری کی اِس بات پر زرگل سمیت پورے پرستان کی پریاں مسکرا اُٹھیں۔