حقیقی اُڑان ___ عاطف حسین شاہ

آج سکول سے چھٹی تھی۔شایان حیدر اپنے گھر کے صحن میں کھیل رہا تھا۔ ایسے میں اُس نے ایک آواز سنی،
”کائیں…کائیں…کائیں…کائیں۔“
شایان حیدر نے سر اٹھا کر دیکھا۔وہ ایک کوّا تھا جو منڈیر پر بیٹھا پھدک رہا تھا۔پھر اُس نے پرواز بھری اور یہ جا…وہ جا…شایان کھیلنا بھول گیا۔اب وہ کوّے اور اُس کی پرواز پر غور کر رہا تھا۔
شایان عمر کے اس دور میں تھا،جس میں نظر آنے والی چیزیں سمجھ میں نہیں آتیں۔
”کوّا اُڑ سکتا ہے،میں کیوں نہیں اُڑ سکتا؟“
شایان نے سوچا پھر اُس نے اپنے بازوؤں کی طرف دیکھا۔کوّے کے پاس پر تھے،اُس کے پاس تو پر بھی نہیں تھے۔ وہ سمجھ گیا کہ وہ اُڑ نہیں سکتامگر اب وہ اڑنا چاہتا تھا۔یہ ننھی سی خواہش اُس کے دل میں مچلنے لگی۔وہ فوراً ابو کے پاس چلا آیا۔اُس کی سوچ کے مطابق ابو اس کی مناسب رہنمائی کر سکتے تھے۔
”ابو جی…!مجھے اُس کوّے کی طرح اڑنا ہے۔“
شایان نے اُڑتے ہوئے کوّے کی طرف اشارہ کیا۔اُس کی بات سن کر ابو ہنس پڑے۔
”بیٹا! ابھی تم چھوٹے ہو مگر پھر بھی میں تمھیں سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں۔ہمارا خالق اللہ ہے۔مخلوقات کی جسمانی ساخت کے مطابق اللہ نے ہر مخلوق کو صلاحیتیں عطا کی ہیں۔ پرندوں کے اڑنے کی ایک وجہ تو ان کے پر ہیں،دوسری وجہ یہ ہے کہ پرندوں کی ہڈیاں اندر سے خالی ہوتی ہیں۔ان خالی ہڈیوں میں ہوا بھری ہوتی ہے،جس سے ان کا وزن ہلکا ہوتا ہے…یہ سارے عوامل پرندے کو پرواز کرنے میں مدد دیتے ہیں۔“
شایان کو کسی اور بات کی سمجھ تو نہ آئی مگر خالی ہڈیوں میں ہوا بھرنے والی بات اس کے دماغ میں بیٹھ گئی۔اب وہ نظر بچا کر گھر سے نکلا۔کھوکھلی ہڈیاں…ان کے اندر ہوا…وہ انہی نکات پر غور کر رہا تھا۔ اسے اپنی کامیابی کے امکانات نظر آنے لگے تھے….وہ اُڑ سکتا تھا۔
راستے میں اُس نے غبارے والا دیکھا۔غبارے والا اپنے ٹھیلے پر کھڑا،غباروں میں گیس بھر رہا تھا۔دھاگے سے بندھے غبارے ہوا میں پرواز کر رہے تھے۔یہ منظر دیکھ کر شایان بہت خوش ہوگیا۔اُسے اپنی مشکل کا حل نظر آگیا تھا۔شایان نے دس روپے کا ایک غبارہ خریدا اور پھر ایک پارک میں آگیا۔اب اُس غبارے کا سہارا لے کر وہ لگا اچھلنے کودنے…مگر شایان کو متوقع کامیابی مل نہیں رہی تھی۔پارک میں ایک بزرگ آدمی کافی دیر سے شایان کی حرکتوں پر غور کر رہا تھا۔جب الجھن حد سے بڑھی تو وہ شایان کے پاس چلا آیا۔
”کیا بات ہے بیٹا؟“
انھوں نے پیار سے پوچھا۔
”میں پرندوں کی طرح اڑنا چاہتا ہوں۔“
شایان روہانسی آواز میں بولا۔
”بیٹا! آپ اڑ سکتے ہیں مگر پرندوں کی طرح اڑنا انسان کے بس میں نہیں ہے۔“
”میں سمجھا نہیں! پرندے کیسے اُڑتے ہیں؟“
شایان نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
”بیٹا! پرندے ہوا میں اڑنے کے لیے زور کا جھٹکا لگاتے ہیں۔پھروہ اپنے پروں کو پھڑپھڑاتے ہوئے گریویٹی (زمین اپنی طرف ہر چیز کو جس قوت سے کھینچتی ہے)کے خلاف قوت لگاتے ہیں۔ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے،اس لیے گریویٹی پرندوں کو اوپر کی طرف دھکیلتی ہے اورپھر پرندہ اپنے پر پھڑپھڑاتا جاتا ہے اور یوں وہ ہوا میں اُڑنے لگتا ہے۔
”اچھا…! مگر میں پھر کیسے اڑسکتا ہوں؟“
شایان نے تجسس کے عالم میں پوچھا۔
”بیٹا! آپ تو بہت اونچا اُڑ سکتے ہیں۔“
یہ سن کر شایان کی آنکھوں میں چمک آگئی۔اس کی خواہش پوری ہونے جا رہی تھی۔اس نے بابا جی کے بولنے کا انتظار کیا۔
”کیا آپ علامہ اقبالm کو جانتے ہیں؟“
بزرگ آدمی نے پوچھا۔
”جی ہاں! روز ہم سکول میں ’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری…‘پڑھتے ہیں۔“
شایان جوش سے بولا۔
”شاباش! انھوں نے انسان کے بارے میں کہا ہے کہ،
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں
بیٹا! حقیقی اُڑان تو انسان کے لیے ہے۔ اقبال نے آپ کو شاہین کہا ہے۔ آپ اُڑ سکتے ہیں، بس اپنی روح کو جگانا ہوگااور اپنی روشنی سے سارے عالم کو مہکانا ہوگا…کیا سمجھے؟“
”سمجھ گیابابا جی! میں پرندے کی طرح تو نہیں اُڑ سکتا مگر اقبال کا شاہین بن کر حقیقی اُڑان ضرور بھر سکتا ہوں۔“
یہ کہتے ہوئے شایان کا چہرہ خوشی سے تمتمانے لگا تھا۔

Leave a Comment