جینی اور اس کا بھائی ایرک ہال کے باہر کھڑے اپنی خالہ کا انتظار کر رہے تھے جو سرکس کے ٹکٹ خریدنے گئی تھیں۔ ان کے ٹکٹ لاتے ہی وہ تینوں اندر داخل ہو گئے۔ اندر بہت رش تھا۔ وہ تینوں ابھی اپنی نشستوں کی جانب بڑھ ہی رہے تھے کہ اچانک ایک چھوٹے قد کا موٹا مسخرہ خالہ سے ٹکرا گیا اور پھر اُن سے جھک کر معافی مانگی۔ خالہ نے سر کے اشارے سے کہا کہ کوئی بات نہیں اور پھر وہ تینوں اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے۔ تھوڑی ہی دیر میں سرکس شروع ہو گیا۔
”خواتین و حضرات اور میرے پیارے بچو! ہم آپ سب کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اب ہم سرکس پریڈ شروع کرنے جا رہے ہیں جس میں آپ سرکس میں شامل تمام ارکان کو دیکھ سکیں گے۔“ رنگ ماسٹر نے اعلان کیا۔ اس کے ساتھ ہی ایک بوڑھا شخص اسٹیج پر نظر آیا جو غالباً سرکس کا مالک تھا۔ اُس نے سر سے پیر تک سرخ کپڑے پہنے ہوئے تھے اور سر پر ایک لمبا سا سفید ہیٹ لگایا ہوا تھا۔ اُس کے پیچھے کئی مسخرے تھے۔ ان کے بعد اسٹیج پر بہت سے گھوڑے، ہاتھی، بندر، بھالو اور اونٹ آئے۔ اس پریڈ کے بعد باقاعدہ سرکس شروع ہو گیا۔ ڈیڑھ گھنٹے بعد پروگرام میں آدھے گھنٹے کا وقفہ آیا تو لوگ کھانے پینے یا یونہی ٹہلنے گھومنے کے لیے اپنی نشستوں سے اُٹھنے لگے۔ جب جینی اور ایرک اپنی خالہ کے ساتھ اُٹھ کر کھڑے ہوئے تو اُنھوں نے دیکھا کہ ان کی خالہ کچھ تلاش کر رہی ہیں۔
”کیا ڈھونڈ رہی ہیں خالہ؟“ جینی نے پوچھا۔
”میرا بیگ! یاد نہیں آ رہا کہ میں نے کہاں رکھا تھا۔“ جینی خالہ کی کرسی کے نیچے جھکی اور بیگ وہاں سے برآمد کر لیا۔
”یہ رہا آپ کا بیگ!“ اس نے کہا۔
”ارے! یہ کرسی کے نیچے رکھا تھا! اچھا چلو خیر، یہ کچھ پیسے لے لو اور اپنے لیے آئسکریم خرید لاؤ۔“ خالہ نے بیگ کھولتے ہوئے کہا اور دیر تک اس میں کچھ ٹٹولتی رہیں۔ پھر انھوں نے کچھ پریشانی کے عالم میں بیگ کی تمام چیزیں اپنی گود میں گرا لیں۔ ”اب کیا ہوا خالہ؟“ دونوں بچوں نے بیک وقت پوچھا۔
”بیگ میں میرا بٹوہ پڑا تھا جس سے میں نے ابھی سرکس کے ٹکٹ خریدے تھے لیکن اب وہ بیگ میں موجود نہیں ہے۔“
جینی نے خالہ کے ہاتھ سے بیگ لے کر اچھی طرح دیکھا اور ساری جیبیں کھنگال ڈالیں۔ خالہ نے اپنے کپڑوں کی جیب میں ڈھونڈا، ایرک نے فرش پر دُور دُور تک دیکھ لیا لیکن بٹوہ کہیں بھی موجود نہیں تھا۔ خالہ نے اپنی گود میں پڑا بیگ کا تمام سامان واپس بیگ میں ڈالا اور پھر کہنے لگیں:
”شاید میں اپنا بٹوہ ٹکٹ بوتھ پر بھول آئی ہوں یا ہو سکتا ہے کہ وہ ٹکٹ رکھتے، نکالتے وقت کہیں نیچے گر گیا ہو۔ میں ہال سے باہر اس کاؤنٹر پر بھی جا کر پوچھتی ہوں جہاں لوگ لاوارث سامان جمع کرا دیتے ہیں۔ شاید وہاں کسی نے میرا بٹوہ بھی جمع کرا دیا ہو۔“
”ٹھیک ہے، آپ جب تک بٹوے کا پتا کریں، ہم دونوں آئسکریم خرید لاتے ہیں۔ میرے پاس کچھ پیسے موجود ہیں۔“ ایرک نے کہا اور وہ تینوں ہال سے باہر نکل آئے۔
باہر خوب چہل پہل تھی۔ سب لوگ کچھ نہ کچھ کھا پی رہے تھے۔ جینی اور ایرک آئسکریم والے کی طرف چلے گئے۔ خالہ ٹکٹ بوتھ کی طرف بڑھ گئیں۔ جینی اور ایرک کو ایک جگہ کافی ہجوم نظر آیا۔ سب لوگ زور زور سے ہنس رہے تھے۔ جینی نے ایک بینچ پر کھڑے ہو کر دیکھا تو اُسے لوگوں کے بیچ ایک مسخرہ نظر آیا جو اپنی مزاحیہ حرکتوں سے سب کو ہنسا رہا تھا۔ مسخرے نے بڑی سی سفید جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔ اُس کی پتلون پر سرخ اور نیلی دھاریاں پڑی ہوئی تھیں۔ اُس کے ایک ہاتھ میں بڑا سا بھورا تھیلا تھا۔ مسخرے کا قد چھوٹا تھا، اس کے سرخ گھنگریالے بال تھے اور اُس نے اپنی ناک پر ربر کی لمبی سی سرخ ناک لگا رکھی تھی۔ ایرک بھی جینی کے ساتھ بینچ پر کھڑا ہو کر مسخرے کو دیکھنے لگا۔ اُنھوں نے دیکھا کہ مسخرے نے زمین پر ایک سکہ پھینکا اور جب وہ سکہ اُٹھانے گیا تو سرخ لباس میں کھڑی ایک خاتون سے ٹکرا گیا۔ مسخرے نے دوہرا ہو کر ان خاتون سے معافی مانگی اور جب سیدھا کھڑا ہوا تو ایک اور صاحب سے ٹکرا گیا۔ مسخرہ اسی طرح لوگوں سے ٹکرا ٹکرا کر جھک رہا تھا اور معافیاں مانگ رہا تھا۔ لوگ ہنس ہنس کر تالیاں بجا رہے تھے۔
اتنے میں جینی اور ایرک نے سامنے سے اپنی خالہ کو آتے دیکھا اور بینچ سے نیچے اتر آئے۔ خالہ بہت آہستہ آہستہ قدم اٹھا رہی تھیں اور چلتے ہوئے دائیں بائیں بھی دیکھ رہی تھیں جیسے کچھ تلاش کر رہی ہوں۔ جینی اور ایرک لپک کر اُن کے پاس پہنچے۔
”خالہ! آپ کیا ڈھونڈ رہی ہیں؟“ جینی نے پوچھا۔
”دیکھ رہی ہوں کہ تلاش گمشدہ والا کاؤنٹر کہاں ہے۔ ٹکٹ بوتھ سے میرا بٹوہ نہیں ملا۔ لیکن پریشان نہ ہو، میں اُسے ڈھونڈ لوں گی۔ تم لوگ جا کے آئسکریم خریدو۔“ خالہ نے بچوں کو تسلی دینے والے انداز میں کہا۔
جینی اور ایرک آئس کریم لینے پہنچے۔ اسٹال پر بہت لمبی قطار لگی ہوئی تھی۔ وہ دونوں بھی قطار میں لگ گئے۔ اُن کے آگے ایک خاتون اپنے دو بچوں کے ساتھ کھڑی ہوئی تھیں۔
”ابھی جو مسخرہ ممی سے ٹکرایا تھا، اُس کی ناک اصلی نہیں تھی۔“ آگے کھڑے بچے نے اپنی بہن کو بتایا۔
”جی نہیں! اس کی ناک بالکل اصلی تھی۔ میں ٹھیک کہہ رہی ہوں ناں ممی؟“
”نہیں! میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔“ لڑکے نے کہا۔
بچوں کی امی مسکرائیں۔ ”تم دونوں ہی ٹھیک کہہ رہے ہو۔ دراصل اس مسخرے کے چہرے پر دو ناکیں تھیں۔ ایک تو اُس کی اصلی ناک جیسی ہماری، تمہاری ہے اور دوسری اُس کی نقلی سرخ ناک جو اُس نے اپنی اصلی ناک کے اوپر لگائی ہوئی تھی۔“
قطار آہستہ، آہستہ آگے بڑھ رہی تھی۔ یہاں تک کہ اُن کے آگے کھڑے بچوں کی باری آ گئی۔ دونوں بچوں نے اپنی اپنی پسند کی آئسکریم لے لی اور اُن کی امی نے پیسے دینے کے لیے اپنا پرس کھولا۔ پھر وہ کچھ پریشان نظر آنے لگیں۔
”ارے! میرا بٹوہ کہاں گیا؟“ وہ اپنے پرس کو کھنگالنے لگیں۔ اتنی دیر میں آئسکریم بیچنے والے نے دونوں بچوں کے ہاتھ سے آئسکریم واپس لے لی۔
”آپ قطار سے باہر نکل کر اپنا بٹوہ ڈھونڈیں۔ پیچھے والے لوگوں کو آگے آنے دیں۔“ اس نے کہا۔ جینی اور ایرک نے آئسکریم خریدی اور اپنی نشستوں کی طرف چل پڑے۔ اچانک انھوں نے اپنے پیچھے ایک خاتون کی آواز سنی۔
”میرا بٹوہ نہیں مل رہا۔ ابھی پندرہ منٹ پہلے تک تو میرے پرس میں ہی تھا جب میں نے بچوں کے لیے چپس خریدے تھے اور اب بٹوہ غائب ہے۔“
٭
”یہ تیسری خاتون ہیں جن کا بٹوہ یہاں گم ہو گیا ہے۔“ ایرک نے کہا۔ جینی نے پلٹ کر ان خاتون کی طرف دیکھا۔ انھوں نے سرخ لباس پہنا ہوا تھا۔ جینی کی یادداشت بہت اچھی تھی۔ اُسے فوراً ہی یاد آ گیا کہ اُس نے ابھی کچھ دیر پہلے ان خاتون کو لوگوں کے اس مجمعے میں کھڑا دیکھا تھا جہاں مسخرہ لوگوں کو ہنسا رہا تھا۔
”آؤ ایرک! ہمیں اس مسخرے کو تلاش کرنا ہو گا۔“ جینی نے یہ کہتے ہی ہال سے باہر دوڑ لگا دی۔ ایرک اس کے پیچھے لپکا۔ جینی اس جگہ پہنچی جہاں انھوں نے مسخرے کو دیکھا تھا۔ وہاں چند لوگ کھڑے مکئی کے دانے اور آئسکریم کھا رہے تھے۔ لیکن اب وہاں مسخرہ موجود نہیں تھا۔ جینی نے اپنی آئسکریم ایرک کو پکڑائی اور خود بینچ پر کھڑے ہو کر چاروں طرف دیکھنے لگی۔
”میں نے اُسے دیکھ لیا۔ وہ وہاں کھڑا ہے۔“ جینی نے ایک طرف اشارہ کیا اور چھلانگ لگا کر نیچے اُتر آئی۔ اُن دونوں نے اس سمت میں دوڑ لگا دی جہاں جینی نے مسخرے کو دیکھا تھا۔ لیکن ان کے راستے میں لوگوں کا بہت ہجوم تھا۔
جب وہ میدان میں اس جگہ پہنچے جہاں فلیش لائٹس، کھلونے اور سیٹیاں بیچنے والوں کے اسٹال لگے ہوئے تھے تو جینی نے ہانپتے ہوئے کہا۔
”وہ ابھی یہیں موجود تھا۔“
اسٹالز کے برابر میں سرکس ملازمین کے لیے کمرے بنے ہوئے تھے۔ ایرک نے جینی کو اس کی آئسکریم واپس کرتے ہوے پوچھا:
”ویسے ہم اس مسخرے کو تلاش کیوں کر رہے ہیں؟“
”اس لیے کہ میں نے اس مسخرے کو ان خاتون سے ٹکراتے دیکھا تھا جو سرخ لباس میں ہماری نشستوں کے پیچھے بیٹھی ہیں اور جن کا بٹوہ گم ہو گیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اُن کا بٹوہ اسی مسخرے نے نکالا ہے۔ یہ وہی مسخرہ ہے جو سرکس میں داخل ہوتے ہوئے ہماری خالہ سے بھی ٹکرایا تھا اور آئسکریم خریدنے والی قطار میں ہم نے جن خاتون کے بچوں کی باتیں سنی تھیں، ان کی امی سے بھی یہی مسخرہ ٹکرایا تھا۔ یہی بٹوے چرا رہا ہے۔ مجھے اس بات کا پورا یقین ہے۔“ جینی نے جلدی جلدی کہا۔
ایرک ہکا بکا اُس کی شکل دیکھ رہا تھا۔ جینی اب ایسے بڑبڑا رہی تھی جیسے اپنے آپ سے باتیں کر رہی ہو۔
”اب تک تو وہ سرکس سے باہر نکل چکا ہو گا۔ لیکن وہ اپنے اس مسخروں والے لباس میں زیادہ دُور تک نہیں جا سکتا۔ مجھے یاد ہے کہ اُس نے بڑی سی سفید جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔ اُس کی پتلون پر سرخ اور نیلی دھاریاں پڑی ہوئی تھیں۔ سر پر چھوٹا سا سفید ہیٹ تھا۔ اس کے سرخ گھنگریالے بال تھے اور اس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا بھورا تھیلا تھا۔“ جتنی دیر میں جینی نے مسخرے کا حلیہ دہرایا، اس وقت تک ایرک نے اپنی آئسکریم ختم کر لی تھی اور اب وہ آئسکریم کی ڈنڈی پھینکنے کے لیے کوڑے دان ڈھونڈ رہا تھا۔ اُس نے دیکھا کہ ان سے چند قدم کے فاصلے پر ایک لمبے قد والا مسخرہ کھڑا ہوا ہے۔
”دیکھو، دیکھو جینی! وہ مسخرہ!“ ایرک نے جینی کو ٹہوکا دیا۔
”نہیں، یہ وہ مسخرہ نہیں ہے۔ لیکن شاید اس کو دوسرے مسخرے کے بارے میں کچھ معلوم ہو۔ چلو، چل کر پوچھتے ہیں۔“
جینی اور ایرک تیز تیز قدموں سے چلتے ہوئے مسخرے کے پاس پہنچے۔ جینی نے اس سے پوچھا کہ کیا اس نے سرخ بالوں والے مسخرے کو کہیں دیکھا ہے۔ مسخرے نے نفی میں سر ہلایا۔
”اُس نے میری خالہ کا بٹوہ چرایا ہے۔“جینی نے بتایا۔
”اوہ! یہ تو بہت بری بات ہے۔“ مسخرے نے حیران ہو کر کہا۔
”خیر! ایک مسخرہ بہت دیر تک نظروں سے اوجھل نہیں رہ سکتا۔ وہ اپنے حلیے سے پہچانا جائے گا۔“ جینی نے کہا اور ایرک کا ہاتھ پکڑ کے آگے بڑھ گئی۔ لیکن پھر اچانک ٹھٹھک کر رک گئی۔
”لیکن نہیں، وہ غائب بھی ہو سکتا ہے۔ اگر ایک مسخرہ اپنا میک اپ اُتار دے، کپڑے تبدیل کر لے تو وہ کسی بھی دوسرے عام آدمی جیسا نظر آنے لگے گا۔ وہ مسخرہ بھی اب سب سے پہلے یہی کام کرے گا۔“
جینی اور ایرک اس وقت جہاں کھڑے تھے وہاں دو کمرے موجود تھے جن کے باہر”ریسٹ روم“ لکھا ہوا تھا۔ اُن میں سے ایک کمرہ خواتین کے لیے اور دوسرا مردوں کے لیے تھا۔
”ہو سکتا ہے کہ وہ ابھی تک ان میں سے کسی کمرے میں موجود ہو۔ ایرک! تم مردانہ کمرے میں دیکھو۔ میں خواتین والے کمرے میں دیکھتی ہوں۔“ جینی نے کہا۔ ایرک مردانہ کمرے میں گھسا ہی تھا کہ اتنے میں لمبے قد والے مسخرے کی آواز آئی۔
”بچو! تم کہیں اس مسخرے کی بات تو نہیں کر رہے جو میدان کے دوسری طرف جا رہا ہے؟“
”کہاں؟ کہاں؟“جینی نے بے چین ہو کر پوچھا۔
”یہاں بینچ پر کھڑے ہو کر دیکھو! وہ وہاں دروازے کی طرف!“ مسخرے نے انگلی سے اشارہ کیا۔
جینی بینچ پر چڑھ کے چاروں طرف دیکھنے لگی لیکن اُس کو دُور دُور تک وہ مسخرہ نظر نہ آیا۔ اتنی دیر میں ایرک بھی مردانہ کمرے سے نکل کر جینی کے پاس آ گیا۔
”اندر کوئی نہیں ہے۔“ ایرک نے بتایا۔
”چلو، مرکزی دروازے پر چل کر چوکیدار سے پوچھتے ہیں۔ شاید اس نے کسی کو باہر جاتے ہوئے دیکھا ہو۔“ جینی نے کہا اور وہ دونوں مرکزی دروازے کی طرف چل پڑے۔ چوکیدار لمبے قد اور سفید مونچھوں والا شخص تھا۔ جینی نے اُس سے پوچھا کہ کیا اُس نے کسی مسخرے کو دروازے سے باہر جاتے ہوئے دیکھا ہے۔
”نہیں! اس وقت کوئی مسخرہ کیسے باہر جا سکتا ہے؟ سرکس کا دوسرا حصہ ابھی باقی ہے۔“
”وہ سرکس کا مسخرہ نہیں ہے۔ وہ ایک چور ہے جو سرکس میں آئے ہوئے لوگوں کے بٹوے چرا رہا ہے۔“ جینی نے سنجیدگی سے کہا۔
”یہ توآپ انوکھی کہانی سنا رہی ہیں لیکن اس دروازے سے کوئی باہر نہیں نکلا۔ اب آپ جلدی سے اپنی نشستوں پر جا کے بیٹھ جائیں ورنہ سرکس کا دوسرا حصہ دیکھنے سے محروم ہو جائیں گے۔“
چوکیدار نے یوں ہلکے سے مسکرا کے کہا جیسے اُسے جینی کی بات پر یقین نہ آیا ہو۔ جینی اور ایرک سست قدموں سے چلتے ہوئے قریبی بینچ پر بیٹھ گئے۔
”ایرک! تم چاہو تو اندر چلے جاؤ۔ لیکن میں اس چور مسخرے کو ڈھونڈے بغیر چین سے نہیں بیٹھوں گی۔“ جینی نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ لوگ اُن کے پاس سے گزر کر واپس ہال میں جا رہے تھے کیوں کہ شو کا دوسرا حصہ شروع ہونے والا تھا۔
”ہو سکتا ہے کہ وہ مسخرہ اسی سرکس کا حصہ ہو۔ تم نے چوکیدار سے یہ کیوں کہا کہ وہ اس سرکس کا مسخرہ نہیں ہے؟ ہو سکتا ہے کہ وہ واقعی اندر ہی موجود ہو اور شو کے دوسرے حصے میں شامل ہو۔“ ایرک نے کہا۔
”نہیں! میرے پاس سرکس کا پروگرام موجود ہے جس میں مسخروں سمیت سرکس کے تمام افراد کی تصویریں ہیں۔ یہ مسخرہ اُن میں شامل نہیں ہے۔“ جینی نے نفی میں سر ہلایا۔
٭
”ارے! تم لوگ یہاں بیٹھے ہو۔ میں تو سمجھی کہ اپنے بٹوے کی طرح میں نے تم لوگوں کو بھی کھو دیا۔“خالہ نے ان کے قریب آتے ہوئے کہا، ”چلو، شو شروع ہونے والا ہے۔“
”کیا آپ کو اپنا بٹوہ مل گیا؟“ جینی نے پوچھا۔
”نہیں، ہر جگہ ڈھونڈ لیا۔ اب سرکس کے بعد تم لوگوں کو گھر چھوڑ کے تھانے رپورٹ کرانے جاؤں گی۔“ خالہ نے کہا۔
”خالہ! جینی کو پتا ہے کہ آپ کا بٹوہ کس نے چرایا ہے۔“ ایرک نے فوراً کہا۔
”کس نے؟“ خالہ نے حیران ہو کر پوچھا۔
”اس مسخرے نے جو آپ سے شو شروع ہونے سے پہلے ٹکرایا تھا۔“ایرک نے بتایا۔
”وہ سرکس کا مسخرہ نہیں تھا۔“ جینی نے کہا۔
”اوہ! پھر تو وہ سرے سے کوئی مسخرہ تھا ہی نہیں۔ اس نے صرف مسخرے کا روپ دھارا ہوا تھا۔ اب وہ نہایت آسانی سے اپنا میک اپ اُتار کے عام لوگوں میں شامل ہو جائے گا۔“ خالہ نے کہا اور پھر چونک کر مرکزی دروازے کی طرف اشارہ کیا جس سے ایک آدمی باہر نکل رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا بھورا تھیلا تھا۔ ”کیا تم لوگوں نے اس آدمی کو دیکھا؟“ انھوں نے پوچھا۔
”چلو، اس کو پکڑتے ہیں۔“ جینی نے کہا اور دروازے کی طرف دوڑ لگا دی۔ ایرک اس کے پیچھے تھا۔
”رکو! تم نے میری خالہ کا بٹوہ کیوں چرایا ہے؟“ جینی چلائی۔ آدمی ٹھٹک کر رک گیا۔
”ہم جان گئے ہیں کہ تم کون ہو! تم وہی نقلی مسخرے ہو جو شو شروع ہونے سے پہلے ہماری خالہ سے ٹکرایا تھا۔ اور اس بھورے تھیلے میں ان کا بٹوہ اور تمہارا مسخرے والا لباس موجود ہے۔“ ایرک نے جلدی جلدی کہا۔
”لیکن میں کوئی مسخرہ نہیں ہوں۔ میں تو رول اور سموسے بیچتا ہوں۔“آدمی نے حیران ہو کر کہا اور اپنے تھیلے سے پلاسٹک کی تھیلیوں میں بند کچھ رول، سموسے نکال کر دکھائے۔ جینی اور ایرک نے شرمندہ ہو کر اس شخص سے معافی مانگی۔
جب وہ اپنی خالہ کے پاس لوٹ رہے تھے تو انھیں دو اور آدمی نظر آئے۔ ان دونوں کے ہاتھ میں تھیلے تھے۔
”کیا آپ رول، سموسے بیچتے ہیں؟“جینی نے پوچھا۔
”نہیں تو! میں تل کے لڈو بیچتا ہوں۔“ ایک نے کہا۔
”اور میں مکئی کے دانے۔“ دوسرے شخص نے بھی فوراً جواب دیا۔ جینی اور ایرک اپنی خالہ کے پاس آ کر بینچ پر بیٹھ گئے۔
”مسخرے نے اپنے چہرے پر بہت سارا میک اپ کیا ہوا تھا۔ اسے اپنے حلیے سے پیچھا چھڑانے میں خاصا وقت لگنا چاہیے۔“ جینی نے کچھ سوچتے ہوے کہا۔
”لیکن وہ ریسٹ روم میں موجود نہیں تھا۔ تو کیا ہم یہ سمجھیں کہ وہ ابھی تک مسخرے کے روپ میں ہی ہے اور کہیں چھپا ہوا ہے؟“ ایرک نے پوچھا۔
”اگر اسے اپنا میک اپ اُتارنے کا موقع نہیں ملا ہے تو وہ ابھی بھی سرکس کے دوسرے مسخروں کے ساتھ مل کر کرتب دکھا رہا ہو گا اور اگر وہ اپنا میک اپ اتارنے میں کامیاب ہو چکا ہے تو بھی وہ اندر دوسرے لوگوں کے ساتھ آرام سے سرکس دیکھ رہا ہو گا اور شو ختم ہونے پر باقی لوگوں کے ساتھ بڑی آسانی سے باہر نکل جائے گا۔ دونوں صورتوں میں وہ ہال کے اندر ہی موجود ہے۔ لہٰذا اب ہمیں بھی اندر چلنا چاہیے۔“ جینی نے کہا اور وہ تینوں اُٹھ کر ہال کی طرف چل پڑے۔
٭
”سب سے پہلے یہاں موجود تمام مسخروں کو غور سے دیکھنا چاہیے۔ اگر وہ مسخرہ ان کے درمیان موجود نہیں ہے تو پھر ہال میں بیٹھے لوگوں کا جائزہ لینا ہو گا۔“ جینی نے کہا۔
”لیکن اگر وہ عام لوگوں میں بیٹھا ہے، تب ہم اُسے کیسے ڈھونڈیں گے؟“ خالہ نے سوال کیا۔
”آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ بغیر میک اپ کے اس مسخرے کو پہچاننا بہت مشکل ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس کے گھنگریالے سرخ بال ہوں اور ہو سکتا ہے کہ اس نے وگ لگائی ہوئی ہو۔ لیکن ایک بات ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں اور وہ یہ کہ اس کا قد چھوٹا ہے۔“ جینی نے کہا۔
”اور یہ بھی کہ اس کے پاس ایک بھورا تھیلا ہے۔“ ایرک نے لقمہ دیا۔ شو میں اس وقت بندر اپنے کرتب دکھا رہے تھے۔ بندروں کے جانے کے بعد اسٹیج پر بہت سے مسخرے آ گئے۔ ان تینوں نے بغور جائزہ لیا۔ مسخروں میں وہ والا مسخرہ موجود نہیں تھا۔ جینی نے مایوس ہو کر ہال پر نظر ڈالی۔ پورا ہال لوگوں سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا اور کرسیوں پر بیٹھے ہونے کی وجہ سے کسی کے بھی قد کا درست اندازہ نہیں ہو رہا تھا۔ ان سے بہت آگے یا بالکل پیچھے بیٹھے لوگ تو اسے نظر بھی نہیں آ رہے تھے۔ لیکن اچانک جینی کو سرخ گھنگھریالے بالوں والا ایک سر نظر آیا۔ اس شخص کی گود میں تھیلے نما کوئی چیز بھی موجود تھی۔ جینی دوڑ کر کرسیوں کی اس قطار تک گئی لیکن یہ دیکھ کر مایوس ہو گئی کہ سرخ بالوں والا سر ایک عورت کا تھا اور اس کی گود میں ایک بچہ تھا۔
اب ان تینوں کی توجہ سرکس پر بالکل نہیں تھی۔ وہ اپنے اطراف کا جائزہ لے کر مسخرے کو ڈھونڈ رہے تھے لیکن بظاہر اس کا کوئی اتاپتا نہ تھا۔ کچھ دیر بعد سرکس ختم ہو گیا۔ اسٹیج پر اختتامی پریڈ چل رہی تھی۔ جینی نے خالہ اور ایرک کو اشارے سے کہا کہ وہ ہال کے دروازے پر جا رہی ہے۔ وہ لوگ چاہیں تو باہر نکل کر میدان میں اس کا انتظار کریں۔ لوگ اب اپنی کرسیوں سے اُٹھ کر ہال سے باہر نکلنا شروع ہو گئے تھے۔ جینی دورازے کے پاس خاموش کھڑی سب کو نکلتا ہوا دیکھ رہی تھی۔ ان میں سے کئی لوگ چھوٹے قد کے بھی تھے لیکن جینی کے پاس یہ معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا کہ کیا ان میں وہ نقلی مسخرہ بھی شامل ہے جس کی ان کو تلاش تھی!
پھر جینی کو دروازے سے کچھ فاصلے پر ایک دبلا پتلا، لمبے قد کا نوجوان نظر آیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا تھیلا تھا اور اس کے چہرے سے پیلا اور سرخ رنگ ابھی تک ٹھیک سے صاف نہیں ہو سکا تھا۔
”یہ وہ مسخرہ ہے جو ہمیں ریسٹ روم کے باہر کھڑا ملا تھا اور اس سے ہم نے نقلی مسخرے کے بارے میں پوچھا تھا۔“ جینی نے سوچا۔
”ہیلو!“ اس نے مسخرے کو آواز دی اور ہاتھ ہلایا۔ مسخرے نے اسے دیکھ لیا مگر جواب میں ہاتھ ہلانے کے بجائے اُس نے اپنے برابر کھڑی ایک عورت کی آستین کھینچ کر اس سے کچھ کہا۔ جینی نے دیکھا۔ اس عورت کے چہرے پر بھی ہلکا ہلکا پیلا اور سبز رنگ ابھی تک موجود تھا۔ گویا وہ بھی سرکس کا حصہ تھی۔ لوگوں کو دھکے دیتے ہوئے وہ دونوں ہجوم میں تیزی سے آگے نکل گئے۔ جینی ان کے پیچھے لپکی۔
٭
دروازے سے باہر اسے ایرک اور خالہ نظر آئے جو وہاں کھڑے اس کا انتظار کر رہے تھے۔
”مجھے ابھی وہ مسخرہ نظر آیا تھا جو میدان میں ریسٹ روم کے باہر کھڑا تھا۔ اس کے ساتھ ایک چھوٹے قد کی عورت بھی تھی۔ ان دونوں کے ہاتھ میں بڑے بڑے تھیلے تھے۔ میرے خیال میں وہ عورت ہی بٹوہ چور ہے۔ مجھے اپنی طرف متوجہ دیکھتے ہی وہ دونوں بھاگ کھڑے ہوئے کیونکہ اس سے قبل میں اس مسخرے سے نقلی مسخرے کے بارے میں پوچھ چکی تھی۔“ جینی نے ہانپتے ہوئے کہا۔ وہ تینوں کھلے میدان میں نکل آئے۔ باہر بارش شروع ہو چکی تھی۔ کچھ لوگوں نے چھتریاں کھول لی تھیں۔ جو بغیر چھتری کے سرکس دیکھنے آئے تھے، وہ اب یونہی بھیگتے بھاگتے باہر کا رخ کر رہے تھے۔ وہ چاروں طرف نظریں دوڑانے لگے۔
”دیکھو، دیکھو! کہیں وہ دونوں تو نہیں ہیں؟“ ایرک نے انگلی سے ایک طرف اشارہ کیا جہاں ایک مرد اور ایک عورت تیزی سے کار پارکنگ میں داخل ہو رہے تھے۔
”ہاں! وہی دونوں ہیں۔“ جینی چلائی۔
”ایرک! تم جا کر چوکیدار کو بلاؤ، جب تک میں ان دونوں کو روکنے کی کوئی ترکیب کرتی ہوں۔“ خالہ نے اپنے بیگ سے ایک اسکارف نکال کر سر پر باندھتے ہوئے کہا۔ ایرک چوکیدار کو بلانے دوڑ گیا۔ خالہ لمبے لمبے ڈگ بھرتی ان دونوں کے پاس پہنچیں۔ جینی ان کے پیچھے تھی۔
”معاف کیجیے گا۔ وقت کیا ہو رہا ہے؟“ خالہ نے اس عورت سے پوچھا۔
”ساڑھے چار۔“ عورت نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
”یہاں سے قریب ترین بازار کون سا ہے؟ مجھے اپنے لیے چھتری خریدنی ہے لیکن میں اس شہر میں نئی ہوں۔“ خالہ نے بات بڑھائی۔ وہ اس عورت کا راستہ روکے کھڑی تھیں۔ جب کہ اس کا ساتھی مرد چند قدم آگے نکل چکا تھا۔ اس نے پلٹ کے دیکھا اور وہیں سے عورت کو آواز دی۔ ”جلدی کرو! کہاں اٹک گئیں؟“
”مجھے نہیں معلوم، اب براہ مہربانی میرا راستہ چھوڑ دیں۔ میں ذرا جلدی میں ہوں۔“ اس عورت نے جلدی، جلدی کہا۔ ان دونوں کی گفتگو کے دوران جینی موقع سے فائدہ اٹھا کر عورت کی پشت پر پہنچ گئی تھی۔ عورت کے کندھے سے کاغذ کا بڑا سا بھورا تھیلا لٹک رہا تھا جس کا منہ کھلا ہوا تھا۔ تھیلے میں ایک سرخ وگ اور ایک سفید جیکٹ کے علاوہ سرخ اور نیلی دھاریوں والی پتلون بھی نظر آ رہی تھی۔ اس نے پیچھے سے ہی خالہ کو ہاتھ سے اشارہ کیا تا کہ خالہ سمجھ جائیں کہ نقلی مسخرہ یہی عورت ہے۔
”ایک تو اس شہر میں سب لوگ جلدی میں رہتے ہیں۔ کسی پردیسی کی مدد کرنا تو کوئی چاہتا ہی نہیں۔“ خالہ نے جینی کا اشارہ سمجھ کر اپنی گفتگو جاری رکھی، ”جہاں سے میں آئی ہوں، وہاں لوگ بڑے اچھے ہوتے ہیں، دوسروں کے کام آتے ہیں ……“ عورت نے کوئی جواب دیے بغیر خالہ کو ایک دھکا دیا اور آگے نکلنے کی کوشش کی۔ اس کا ساتھی مرد بھی اب اس کی مدد کے لیے پلٹ کر واپس آ رہا تھا۔ اسی وقت دو چوکیدار وہاں پہنچ گئے۔
”اے! تم دونوں جہاں ہو، وہیں رک جاؤ!“ ایک چوکیدار چلایا۔ عورت نے یہ سنتے ہی دوڑ لگا دی لیکن بری طرح پھسل کر گری کیونکہ بارش سے جگہ جگہ کیچڑ ہو گئی تھی۔ مرد اپنی گاڑی کی طرف دوڑا۔ لیکن ابھی وہ گاڑی کا دروازہ ہی کھول پایا تھا کہ دونوں چوکیداروں نے اُسے جا لیا۔ وہ اسے پکڑ کے وہیں لے آئے جہاں اس کی ساتھی عورت اب ایک بینچ پر بیٹھی تھی۔ جینی، ایرک اور ان کی خالہ اس کی نگرانی کر رہے تھے۔ چوکیدار انھیں لے کر ایک دفتر میں داخل ہوئے جو ٹکٹ بوتھ کے برابر میں تھا۔ جینی، ایرک اور خالہ بھی اندر چلے گئے۔ عورت اپنے تھیلے کو گود میں رکھ کے بیٹھ گئی۔ مرد اس کے برابر میں کھڑا رہا۔ ایک چوکیدار نے پولیس کو فون کر دیا۔
”آپ نے ہمیں کیوں پکڑا ہے؟ ہم نے کچھ نہیں کیا۔“ مرد نے کہا۔
”آپ کی ساتھی نے میرا بٹوہ چرایا ہے۔ ہم نے اس لیے آپ کو روکا ہے۔“ خالہ نے کہا۔
”صرف یہی نہیں بلکہ آپ لوگوں نے سرکس میں آنے والے بہت سے دیگر افراد کے بٹوے بھی چرائے ہیں۔ اور مجھے یقین ہے کہ وہ سارے بٹوے اس وقت آپ دونوں کے تھیلوں میں موجود ہیں۔“جینی نے کہا۔
”میرے پاس کوئی بٹوہ نہیں ہے۔“ مرد نے فوراً کہا۔
”اور میرے پاس بھی نہیں ہے۔ اس تھیلے کے اندر موجود سب چیزیں میری اپنی ہیں۔“ عورت بولی اور یہ کہتے ہوئے ذرا جوش میں اپنا تھیلا اٹھا کے ہلایا مگر یہ کیا!!!
تھیلا بارش میں گیلا ہو جانے کی وجہ سے چَرچرا کے پھٹ گیا۔ اس کے نچلے حصے سے مسخروں والے جوتے، ہیٹ، جیکٹ، پتلون، سرخ وگ اور بہت سارے بٹوے باہر آ کے گرے۔ خالہ نے اپنا بٹوہ پہچان کر اُٹھا لیا۔ انھوں نے بغیر بٹوہ کھولے دونوں چوکیداروں کو اس میں موجود پیسوں اور دیگر چیزوں کی تفصیل بتائی اور پھر بٹوہ کھول دیا۔ بٹوے میں موجود سامان اور خالہ کی بتائی ہوئی تفصیل میں رتی برابر بھی فرق نہیں تھا۔
٭
سرکس کا مالک جیک دفتر میں داخل ہوا۔ اس نے بٹوؤں میں موجود شناختی کاغذات کی مدد سے بٹوہ مالکان کی ایک فہرست تیار کی اور ٹکٹ بوتھ سے آج کے شو میں شریک لوگوں کے رابطہ نمبر نکلوائے۔
”میں ان سب لوگوں کو فون کر کے آج ہی اطلاع دے دوں گا کہ ان کے بٹوے مل گئے ہیں۔“ جیک نے کہا۔ اتنی دیر میں پولیس بھی وہاں پہنچ گئی۔
”اچھا! تو تم دونوں اپنی حرکتوں سے باز نہیں آؤ گے۔“ پولیس افسر نے ان دونوں کو گھورا۔
”جب ہم نے پچھلی بار تمہیں گرفتار کیا تھا تو تم دونوں ریل کنڈکٹر کے حلیوں میں تھے۔ ایک لوگوں کی جیب کاٹتا اور دوسرا دھیان رکھتا کہ کہیں اصلی کنڈکٹر نہ دیکھ لے۔“ دوسرے پولیس افسر نے کہا۔
”انھوں نے اس بار بھی ایسے ہی واردات کی ہے۔ یہ عورت لوگوں کے بٹوے نکال رہی تھی اور مرد اس بات کو یقینی بنا رہا تھا کہ کہیں وہ پکڑی نہ جائے۔ یہ دونوں دوران واردات نہیں پکڑے جا سکے کیونکہ ہم سارا وقت یہ سمجھتے رہے کہ نقلی مسخرہ کوئی مرد ہے۔ ہم نے مردوں والے ریسٹ روم میں اسے تلاش کیا لیکن یہ تو عورتوں والے ریسٹ روم میں اپنے حلیے سے جان چھڑا رہی تھی اور اس ریسٹ روم کو دیکھنے سے پہلے ہی اس کے ساتھی مسخرے نے ہمیں مرکزی دروازے کی طرف یہ کہہ کر متوجہ کر دیا کہ اس نے وہاں کسی مسخرے کو دیکھا ہے۔ اس وجہ سے ہم دوسرا کمرہ دیکھے بغیر ہی مرکزی دروازے کی طرف دوڑ پڑے۔“ جینی نے بتایا۔
”اور جب ہم چوکیدار سے پوچھنے مرکزی دروازے پر گئے تھے، اس وقت تک اس کے ساتھی مرد نے بھی اپنا مسخروں والا حلیہ تبدیل کر لیا اور پھر دونوں آرام سے اندر بیٹھ کر شو دیکھنے لگے۔“ ایرک نے کہا۔
”بہت سرکس دیکھ لیا۔ اب چلو ہمارے ساتھ!“ ایک پولیس افسر نے دوسرے کو اشارہ کیا اور اس نے آگے بڑھ کے ان دونوں کو ہتھکڑیاں ڈال دیں۔
”میں بہت خوش ہوں کہ یہ دونوں آپ لوگوں کی مدد سے پکڑے گئے ورنہ آج کی چوریوں کے بعد ہمارے سرکس کی بہت بدنامی ہوتی۔ جن لوگوں کے بٹوے چوری ہوئے ہیں، ان سب نے ہم سے آ کر شکایت کی تھی اور کہا تھا کہ وہ اس واقعے کی پولیس میں رپورٹ درج کرائیں گے۔“ پولیس کے جانے کے بعد سرکس کے مالک جیک نے ان سے کہا۔
”شکر ہے کہ چور پکڑے گئے اور اب سب کے بٹوے ان کو واپس مل جائیں گے۔“ جینی خوش ہو کر بولی۔
”بالکل…… اور یہ سب کچھ آپ لوگوں کی وجہ سے ممکن ہوا۔ اس لیے میں اس تعاون کا شکریہ ادا کرنے کے ساتھ ساتھ آپ لوگوں کو سرکس کے اگلے شو کے مفت ٹکٹ بھی دے رہا ہوں کیونکہ چور کی تلاش میں آپ لوگ شو کا دوسرا حصہ پوری طرح دیکھ نہیں سکے تھے۔ اس کے علاوہ یہ کچھ اور ٹکٹ ہیں۔ آپ اپنے دوستوں یا رشتے داروں کو بھی اگلے شو میں اپنے ساتھ لا سکتے ہیں۔“ جیک نے یہ کہتے ہوئے چودہ ٹکٹ ان کی طرف بڑھائے اور دونوں بچے خوشی سے مسکرانے لگے۔
٭٭٭