سوال:مومن کی غزل کی کی نمایاں خصوصیات نشاطیہ رنگ اور طربیہ رنگ ہے۔ اس قول کی روشنی میں کلام مومن کا ناقدانہ جائزہ لیں۔


جواب: مومن خان مومن:


مومن خان نام اور مومن تخلص تھا۔ والد کا نام غلام نبی خاں تھا۔ مومن کے دادا سلطنت مغلیہ کے آخری دور میں شاہی طبیبوں میں داخل ہوئے اورحکومت سے جاگیر بھی حاصل کی۔ مومن 1800ء کو دہلی میں پیدا ہوئے ان کے والد کو شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے بہت عقیدت تھی۔ چنانچہ شاہ صاحب موصوف نے ہی مومن خاں نام رکھا۔ گھر والوں کو یہ نام ناپسند تھا اسی لیے انہوں نے آپ کا نام حبیب اللہ رکھنا چاہا لیکن آپ نے شاہ عبدالعزیز صاحب ہی کے نام سے نام پایا۔ مومن بچپن ہی سے ذہن طبع تھے۔ حافظہ بہت اچھا تھا۔ چنانچہ عربی و فارسی، طب، نجوم اور موسیقی میں جلدی کمال حاصل کر لیا۔ اصناف شاعری میں قصیدہ، رباعی،واسواخت، غزل، ترکیب بند، مثنوی سبھی پر طبع آزمائی کی ہے۔
ابتدائی تعلیم:
مومن کے والد غلام نبی خان دہلی کے مشہور طبیبوں میں شمار ہوتے تھے۔ انہیں حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے بے حد عقیدت تھی۔ حضرت شاہ عبدالعزیز نے ہی مومن کی پیدائش کے موقع پر مومن کے کان میں اذان دی اور مومن نام رکھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ جب ذرا ہوش سنبھالا تو مولانا شاہ عبدالقادر سے عربی کی کتابیں پڑھیں۔ گویا مومن خان نے درسیات کی تکمیل ایک ایسے گھرانے میں کی جو ایک مدت تک دلی میں اپنے علم و فضل کے سبب معزز و ممتاز رہا تھا۔دسیات کی تکمیل کے بعد مومن نے اپنے والدجن کا نام غلام نبی خان اور اپنے دو چچا حکیم غلام خان اور حکیم غلام حسن خان سے طب کی کتابیں پڑھیں اور اپنے ابائی مطب  میں ان خاندانی بزرگوں کی زیر نگرانی نسخہ نویسی کی۔
نجوم میں مہارت:
اس زمانے میں مومن کو علمِ نجوم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوا۔ اس کو بھی زمانے کے اہل کمال سے حاصل کیا اور مہارت بہم پہنچائی۔ مومن کو اس فن میں ایسا ملکہ حاصل تھا کہ بڑے بڑے منجم اور جوتشی حیران اور ششدر رہ جاتے۔ سال میں صرف ایک بار تقویم دیکھ لیتے اور پورے بارہ ماہ کیفیات اور اثرات ان کے ذہن میں محفوظ رہتے۔
فن موسیقی سے شغف:
علم کی طرح فن موسیقی سے بھی مومن خان کو شغف تھا۔ اس میں وہ نام پیدا کیا کہ لوگ ان کے کمال کے معترف ہوگئے۔ شطرنج سے بھی ان کو کمال کی مناسبت تھی۔ جب کھیلنے بیٹھتے تو دنیا و مافیہا کی کوئی خبر نہ رہتی اور تمام ضروری کام بھول جاتے۔
شاعری سے مناسبت:
مومن خان مومن اگرچہ کئی علم و فنون میں دسترس رکھتے تھے لیکن اپنی زندگی میں سب سے زیادہ دلچسپی انہوں نے شعرو شاعری میں لی تھی اور یہی ان کی دائمی شہرت اور نام و نمود کا ذریعہ بنی۔ مومن خان کو شاعری سے طبعی مناسبت تھی۔ جہاں ان کی عاشقانہ مزاج نے اس شوق کو ہوا دی، وہاں دلی کے ماحول نے بھی مہمیز کا کام کیا۔ مومن کے عہد میں دہلی اردو کا کا مرکز تھی۔غالب، ذوق،بہادر شاہ ظفر، صبہائی،مجروح اور شیفتہ  جیسے بلند پایہ شاعر غزل سرائی کر رہے تھے۔ میرو سودا کی طرح یہ عہد اردو غزل کے لیے نہایت سازگار اورتابناک تھا۔ اس میں ان کی شاعری کا آغاز ہوا۔ ابتداء میں شاہ نصیر کو اپنا کلام دکھایا یا اور ان سے اصلاح کی۔
مومن کے کلام کا بیشتر حصہ غزلیات اور مثنوی پر مشتمل ہے۔ یوں تو وہ قادر الکلام شاعر تھے اور غزل، قصیدہ،مثنوی، تاریخ معمہ سب ہی اصناف سخن میں طبع آزمائی کی تھی لیکن غزل اور مثنوی بی سی خاص مناسبت تھی۔ مومن نے اپنی زندگی کے تقریبا 52 سال گزارے کہ ایک دن کوٹھے سے گر پڑے اور چند ماہ بعد 1268ھ مطابق 1851ء میں وفات پا گئے۔اپنے مرنے کی تاریخ خود لکھی تھی۔
مومن کا رنگ تغزل:
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا                جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
مومن خان مومن اردو کے ایک قادر الکلام اور منفرد غزل گو ہیں۔ عصری اعتبار سے یہ اسی دور کے شاعر ہیں جس دور میں ذوق اور غالب آسمان ادب پر جگمگاتے ستاروں کی طرح منور تھے۔ ان دو قدآور شاعروں کی موجودگی میں اپنا مقام پیدا کر لینا اور اپنی انفرادیت کو تسلیم کر لینا کوئی آسان کام نہ تھا۔ مومن نے نہ صرف اردو شاعری میں نمایاں مقام پیدا کیا بلکہ غزل گوئی میں بھی اپنی انفرادیت کو سب شاعروں اور نقادوں سے بھی تسلیم کرا دیا اور عظیم شاعروں میں جگہ حاصل کر لی۔

ڈاکٹر عبادت بریلوی تحریر کرتے ہیں:
”اردو شاعری میں مومن کی ایک ممتاز حیثیت رکھتے ہیں۔ انہوں نے اردو غزل میں ایک نیا رنگ نکالا ہے اور جدت کی جوآب و تاب اور افق کی جو چمک دمک ہے اس کی مثال اردو غزل میں دو ڈھاء سو سال کی روایت میں کسی دوسری جگہ مشکل سے ہی مل سکتی ہے۔ انہوں نے اس اعتبار سے ایک نئی دنیا پیدا کی ہے۔ایک نیا افق تلاش کیا ہے فن کی جوراہ انہوں نے نکالی ہے وہ خود ہی اس کے راہی ہیں۔ کسی دوسرے کو اس پر چلنا نہیں آتا۔ اس سے قبل کسی نے اس کا خواب بھی نہیں دیکھا۔“
حسن و عشق:
مومن کی غزل میں حسن و عشق کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ دہلی کی شعراء کی روایت پسندی کو ترک کرتے ہوئے سب سے پہلے انہوں نے صنف نازک کو اپنا محبوب بنایا جس کی وجہ سے ان کے تغزل میں انفرادیت اور کشش پیدا ہوگئی۔ ان کا محبوب رکھ رکھاؤ، متانت و شرافت کا مرقع ہے۔ مومن نے مقابلے میں معاملہ بندی کی شاعری جرات کے دیوان میں ملتی ہے لیکن جرات نے معاملات بیان کرنے میں جرات سے کام لیا ہے۔ ان کی غزل ہوس وعریانی کے پیکر نظر آتے ہیں جس کے باعث عشق کی پاکیزگی فسق کے درجے  پر پہنچ کر گناہ کی آسودگی میں لتھڑی ہوئی نظرآتی ہے لیکن مومن کی غزل میں سرور و نشاط کا صحت مندانہ انداز ہے۔ان کے تحفظ میں میں سادگی اور حسن سے بے نظیر صدیقی کہتے ہیں:
”مومن اردو کے طرح غزل گو شاعر ہے جن کے رنگ تغزل میں ہرجگہ خلوص اور سچائی ہے۔ میرے ذہن میں تغزل کا وہی مفہوم ہے جو عاشق محبوب اور رقیب کی مثلث میں گھرا ہوا ہے۔“
مومن اسلوب:
مومن اسلوب بیان کا بادشاہ ہے۔ معمولی سی معمولی بات کا اظہار کرتا ہے تو وہ بھی اس لطف کے ساتھ ہی اس میں جدت پیدا ہو جاتی ہے اور ذہن میں سامع بے اختیار سے لطف اٹھاتا ہے،پھر وہ اسی سلسلے میں جب انہونی کو ہونی اور ہونی کو انہونی ثابت کر جاتا ہے تو عجیب سماں پیدا ہوجاتا ہے۔ شب فراق کی انتہائی تکلیف سے مر جانا مرنے کی آرزو بالکل قدرتی خواہش ہے۔ اگر کوئی شخص کے خلاف جائے گا تو یقینا فطری ادعا کے خلاف کرے گا۔
ذرا ملاحظہ ہوں میں یہ شعر جسے پڑھ کر خوامخواہ داد دینے کو جی چاہتا ہے
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا
یہ شعر تو قادرالکلامی کا مکمل اظہار ہے
تم میرے پاس ہوتے ہو گویا جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
محسوسات کی شاعری:
مومن محسوسات کے شاعر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلوں میں حواس کو متاثر کرنے کا بڑا سامان ہے۔ مومن کی غزل میں غالب کی غزلوں کی طرح کا ذہن نہیں ملتا۔اس میں شعور کی کارفرمائی زیادہ نظر نہیں آتی۔ فکری اور فلسفیانہ پہلو بھی اس کی نمایاں نہیں ہوتا۔ حیات و کائنات کے بنیادی طبیعاتی اور اخلاقی مسائل بھی اس میں نظر نہیں آتے۔ دراصل تصوف کے راستے یہ رجحانات اردو غزل میں داخل ہوچکے تھے۔ مومن نے قبل از خود ان کے زمانہ میں ان سب کو غزل میں داخل کرنے کی ایک عظیم روایت اردو غزل میں قائم ہوچکی تھی مگر مومن کو تصوف سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔
اشعار:
نیند نہیں یار آپ آپ دوپٹہ کس کے منہ سے ہٹ گیا ہیزمین سے روشن افلاک نورافشاں تلک
  مومن وحشی کو دیکھا اس طرف سے آئے تھے تم ہمارے کسی طرح نہ ہوتے
غزلیات مومن کی خصوصیات:
روایت کا گہرا مگر منفرد رنگ:
مومن کے تغزل کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ تغزل کی روایت کا ایک عنصر اور جزو سمجھ کر کبھی رسمی انداز میں نہیں بر تتے۔ انہوں نے ایک عورت کو اپنا محبوب بنایا اور محبت کے اس رشتے کے مختلف کڑیوں سے اپنے انداز تغزل کو حسن و دلفریبی دی۔ جس طرح کے ان کے عشق میں خلوص ان کے محبوب کی دلبری و دلستانی کی ساری صفات کے باوجود ایک خاص طرح کا رکھ رکھاؤ اور روک تھام ہے اور یہی خلوص اور ہی رکھ رکھاؤ اور روک تھام اکثر جگہ ان کے تغزل میں نمایاں ہے۔ عورت کو بلا شرکت غیرے یہ شرف دینے میں جرات ان کے پیش رو ہیں   مگر مومن کے تغزل میں صحتمندی کا جو گہرااثر ہے وہ نہ صرف اس سے عشق و عاشقی کی دنیا میں عالی مرتبہ بنایا ہے بلکہ شاعری کے نقطہ نظر اس میں ایک ایسی کشش پیدا کرتا ہے جو مومن سے پہلے کسی کے حصے میں نہیں آئی۔مومن کے بعد البتہ بہت سوں نے اس سے اپنی جھولیاں بھری ہیں۔
یہ عذر امتحان جذب دل کیا نکل آیا میں الزام ان کو دیتے تھا قصور اپنا نکل آیا
ہنستے جو دیکھتے ہیں کسی کو کسی سے ہم منہ دیکھ دیکھ روتے ہیں کس بے کسی سے ہم
نزاکت آفرینی:
مومن خان کا کلام نازک خیالی اور بلند پروازی کے لیے شہرہ آفاق ہے۔ ان کی تشبیہات اور استعارے بالکل غیر معمولی ہوتے ہیں اور کلام میں خصوصیت پیدا کر دیتے ہیں۔ اس میں بلند پروازی کے ساتھ ساتھ ذہنی جذبات ان کا جوہر بھی ہے اور یہی چیز ان کو طرز لکھنؤ سے علیحدہ کر دیتی ہے۔ عاشقانہ رنگ کے وہ استاد کامل ہیں۔ علمی لیاقت اور طباع اُن کا مال مضامین سے بچاتی ہے۔ وہ بھی خارجیت  کے دلدادہ تھے۔ ان کے بعض اشعار تو نزاکت میں آج بھی بطور مثال پیش کیے جاتے ہیں۔
تاب نظارہ نہیں آئینہ کیا دیکھنے دوں اور بن جائیں گے تصویر جو حیراں ہوں گے
وہ آئے ہیں پشیماں لاش پر آج تجھے اے زندگی لاؤں کہاں سے
معاملہ بندی:
اردو غزل کے مختلف شاعروں کے یہاں عشقیہ شاعری کا آہنگ جو مختلف زمانوں میں پیدا ہوتا رہا، مومن کسی ایک طرف جھکتے ہوئے نظر نہیں آتے۔ میر کے ہاں ہجرو فراق، مایوسی اور ناکامی نے جو فضا پیدا کی ہے اس سے بھی انہیں کوئی واسطہ نہیں۔غالب کے ہاں تیعش پرستی اور خواہش پرستی اور شاید بازی نے جو حالات پیدا کیے ہیں، ان سے بھی وہ کوئی علاقہ نہیں رکھتے ہیں۔ اس لیے مومن نے ان کے درمیان ایک راستہ نکالا ہے۔ عشقیہ موضوعات کی ترجمانی کرتے ہوئے جو فن مومن کی غزلوں میں چھائی رہتی ہے۔
اعجاز سے زیادہ ہے سحر اس کے ناز کا آنکھیں وہ کہہ رہیں جواب سے بیان نہ ہو
کیا سناتے ہو کہ ہے ہجر میں جینا مشکل تم سے رحم پر مرے سے تو آسان ہوگا
اسلوب شعر اور زبان:
مومن اسلوب اور قدرت بیان کا بادشاہ ہے۔ وہ معمولی سی بات کا بھی اظہار کرتا ہے تو بھی اس لطف کے ساتھ اس میں جدت پیدا ہو جاتی ہے اور ذہن سامع بے اختیارانہ طور پر اس سے لطف اٹھاتا ہے پھر وہ اس سلسلے میں جب انہونی اور ہونی اور ہونی کو انہونی ثابت کر جاتا ہے تو عجیب سماں پیدا ہوتا ہے۔ شب فراق اس کے خلاف جائے تو یقینا فطری ادعا کے خلاف ہے ملاحظہ ہو کہ مومن کس حسن کے ساتھ اس کی توحید کرتا ہے۔
شب فراق میں بھی زندگی پہ مرتا ہوں کہ خوشی نہیں ملے گی پر ملال تو ہے
فنی اور جمالیاتی پہلو:
مومن کی غزل فنی اور جمالیاتی اعتبار سے ایک امتیازی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے غزل کے بنیادی اصولوں کو اپنی غزل میں برتا ہے ہے اور ساتھ ہی ان اصولوں میں کچھ اضافہ بھی کیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزل میں ایک نیا انداز ملتا ہے۔ اس میں داخلیت خارجیت کا ایک حسین امتزاج ملتا ہے۔ محسوساتی اندازے اس میں رنگینی اور رچاؤ کی کیفیت  پیدا کر دیتے ہیں۔اس میں ہر بات ایک نئے انداز میں کہی گئی ہے۔ اشارے اور کنارے اس میں بڑا کام کرتے ہیں۔ اس کی وجہ سے اس میں جدت اور ایچ نمایاں نظر آتی ہے۔ اس میں رمزیت اور ایمائیت کی فضا بھی پیدا ہوتی ہے اور اس میں شبہ کہ کہیں الہام سے بھی جا ملتی ہیں لیکن یہ الہام لطافت کی حدود میں رہتا ہے۔ مومن کی غزل ایک پہلودار کیف ہے جو غزل اور خاص طور پر انیسویں صدی کی غزل کے ساتھ مخصوص ہے۔
خبر نہیں کیا ہے کیا ہوا پر راس پر نشان نظر آتا ہے نامہ بر کا سا
چل تو دیکھتا کہ قیامت نے بھی قدم طرز و خرام شوخی رفتار کے لیے
روح عصر:
مومن کی شاعری اپنے زمانے کی روح اس غفلت میں ڈوبے ہوئے ہے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی کہتے ہیں:
”اس میں شبہ نہیں کہ مومن کی غزلوں کا مزاج عشقیہ ہے لیکن مومن نے اپنے زمانے میں اور گردوپیش کی زندگی سے آنکھیں بند نہیں کی تھیں۔ زمانے کے تمام معاملات وسائل کے محض سے خاموش تماشائی نہیں تھے۔ انہوں نے اپنے عہد کے نشیب و فراز کو دیکھا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ہی زمانے کے تمام معاملات مسائل کی ترجمانی بھی ملتی ہے۔ مومن کی آنکھوں کے سامنے سید کی شکست اور موت کا پورا نقشہ موجود تھا جس سے اس وقت زندگی دوچار تھی۔“
غزل گوئی:
موم کی وجہ شہرت اُن کی غزلوں کی وجہ سے ہے جہاں حسن و عشق ایک نگار خانہ ہے۔ یہ غزلیں اپنے بانکپن، شگفتگی اور رنگینی کے اعتبار سے ایک سدا بہار عظمت کی حامل ہیں۔ مومن نے غزل کی روایات کو بڑی کامیابی کے ساتھ ہر جگہ برقرار رکھا ہے۔ اس کے خدو خال بڑے دل کش انداز میں ابھارے ہیں۔ اُن کی غزل کا دائرہ حسن و عشق تک محدود ہے لیکن اس محدود دائرے میں انھوں نے ایسے کمال کا مظاہرہ کیا ہے کہ آج اتنا زمانہ بدل جانے کے بعد بھی اہل نظر اُن کی غزل پر فریفتہ ہیں۔
اسی محدود دائرے میں انھوں نے جدت پیدا کی ہے اور معاملات عشق کی جزئیات کو ایسی خوب صورتی اور فن کاری کے ساتھ پیش کیا ہے کہ نہ کہیں پستی کا احساس ہوتا ہے اور نہ یکسانیت کا۔ مومن کو تشبیہوں اور استعاروں کے برتنے کا بہت سلیقہ ہے۔ نازک خیالی اور مضمون آفرینی کلام مومن کی اہم خصوصیت ہے۔
ابہام:
          کہیں کہیں الجھاؤ اور پیچیدگی پیدا ہوتی ہے۔ شاعری میں ابہام حسن ہے یعنی بات کو گھول کر بیان کیا جائے لیکن ابہام اتنا زیادہ ہو کہ شعر پہیلی بن جائے تو یہی عیب ہے۔ مومن کے کلام میں اکثر جگہ ابہام اس طرح ہے کہ وہ حسن بن جاتا ہے۔

Leave a Comment