بزدل مینڈک
حسن اختر

موسم سرما ختم اور گرمی کا موسم شروع ہو چکا تھا۔ زمین کے اندر رہنے والے تمام جانور باہر نکل چکے تھے۔ رنگُو بھی طویل عرصے تک زمین کی تہہ میں سونے کے بعد جاگ چکا تھا۔ وہ ایک بزدل مینڈک تھا۔ جسم فوجی وری کی طرح دھاری دار تھا۔ مختلف رنگوں کی آمیزش سے وہ ایک فوجی مینڈک لگتا تھا۔ ان رنگوں کی وجہ سے اس کا نام رنگُو پڑا تھا۔ فوجی بہادر ہوتے ہیں لیکن رنگو کا معاملہ اس کے برعکس تھا۔ وہ اندر سے بزدل تھا۔ باہر کی دنیا سے خوف زدہ رہتا تھا۔ وہ وہم کا شکار ہو چکا تھا کہ باہر نکلا تو مر جائے گا۔
اس کا بس چلتا تو ساری زندگی یوں ہی زمین کے اندر مٹی چاٹ چاٹ کر بسر کر دیتا لیکن نئے موسم میں زمین کے اندر رہنا حبس بے جا کے مترادف تھا۔ انسانوں اور دیگر جانوروں سے نظریں بچاتا ہوا وہ ایک سمت میں سفر کرنے لگا۔ سامنے ایک پہاڑ نظر دیکھا تو ذہن میں ایک زبردست خیال آیا۔ رنگو پہاڑ پر چڑھنے لگا۔ اس کے خیال میں پہاڑ کی چوٹی پر رہائش گاہ نسبتاً محفوظ ہو سکتی تھی۔
راستے میں تھک کر سانس پھول جاتی تو رنگُو سستا کر تازہ دم ہو جاتا تھا۔ پھر پھدکتا ہوا چوٹی کی جانب محو سفر ہو جاتا تھا۔ بالآخر وہ چوٹی پر پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ اس کے دل میں چوٹی کی دوسری طرف کا علاقہ دیکھنے کی شدید حسرت تھی۔ لیکن ایسا کیا ہوا کہ اس کی یہ خوش گوار حسرت مایوسی میں بدل گئی تھی؟ اس کا جواب کہانی کے آخر میں ملے گا۔
رنگُو چوٹی کے اوپر ایک پتھر پر اگلی ٹانگیں اٹھا کر پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہوا تو بالکل چھوٹے سے ایک آدمی کی طرح لگ رہا تھا۔ اس نے سامنے دیکھا تو حیرت کے مارے اس کی چیخ نکل گئی جنوبی سمت والا علاقہ ہُو بہُو شمالی سمت کا عکس تھا۔ زمین کے اوپر باہر کی دنیا کے بارے میں رنگو کا وہم مزید پختہ ہو چکا تھا۔ اس نے بلا سوچے سمجھے چوٹی پر رہائش کا فیصلہ ترک کر دیا اور واپسی کا منصوبہ بنا لیا۔
جس پر عمل کرتے ہوئے رنگو نے پہاڑ سے اترنا شروع کر دیا تھا۔ واپسی کا سفر خاصا آسان تھا۔ اترائی کے رخ لمبی لمبی چھلانگیں لگاتا رنگو پہاڑ سے اُترنے میں کامیاب ہوا تو شام کا سہانا موسم دیکھ کر خوشی سے ٹرٹرانے لگا:
”ٹرررررٹرٹرررر……“
رنگو رات گزارنے کے لیے پہاڑ کے دامن میں آباد شہر کے ایک گھر میں داخل ہو گیا۔اچانک ایک لڑکا اور لڑکی تیزی سے اس پر لپک پڑے گویا رنگو آسمان سے گرا اور کھجور میں اٹکا ہو۔ وہ دونوں بہن بھائی میڈیکل کالج کے طلباء تھے اور دل کا مشاہدہ کرنے کیلیے انہیں ایک مینڈک کی ضرورت تھی۔ رنگو جیسا بزدل مینڈک دل کے آپریشن کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ اگرچہ ڈرپوک تھا لیکن رنگو کو زندگی بہت پیاری تھی۔وہ اتنی جلدی مرنا نہیں چاہتا تھا۔
اس نے جان بچانے کی کوشش میں چھلانگ لگائی تو میز پر پڑے شیشے کے گلدان سے ٹکرا گیا۔ چھناکے کی آواز سے گلدان ٹوٹا اور کرچیاں فرش پر بکھر گئی تھیں۔ وہ تو بھلا ہو گھر کی مالکن کا جو باہر سے چلائیں تو بہن بھائی شیشے کے ٹکڑے اکٹھے کرنے میں مصروف ہو گئے۔
موقع پا کر رنگو جلدی سے اندھیرے میں فرار ہو گیا تھا۔ رات بھر وہ سڑک کے کنارے پر کھڑا رہا اور کھلے آسمان تلے ڈر ڈر کر گزار دی تھی۔ وہ سڑک پار کرنا چاہتا تھا لیکن اس پر موت کا وہم سوار ہو چکا تھا۔ رنگو کے بعد آنے والے کئی مینڈک سڑک پار کر چکے تھے لیکن وہ تاحال ہچکچا رہا تھا۔ وہ جب بھی آگے بڑھنے کا ارادہ کرتا سڑک پر شور مچاتی کوئی نہ کوئی گاڑی آ جاتی اور پل بھر میں گزر جاتی تھی۔
آخر کار دل پر پتھر رکھ کر ایک مینڈک کے ہمراہ اس نے سڑک پر چھلانگ لگا دی۔ اچانک ایک گاڑی نمودار ہوئی اور پٹاج کی آواز سے رنگو کو ٹائر کے نیچے روندتی ہوئی گزر گئی۔ دوسرا مینڈک گاڑی کے نیچے ضرور آیا تھا لیکن اس کے دل میں اعتماد تھا جس وجہ سے وہ ٹائر کے نیچے آنے سے محفوظ رہا تھا وہ دونوں ٹائروں کے درمیان خالی جگہ میں گرا اور بچ گیا تھا۔ رنگو کو اس کا وہم لے ڈوبا تھا۔ رنگو سڑک پر چپک کر اُس کی ہموار سطح کاحصہ بن چکا تھا۔ پہاڑ سے رنگو کی واپسی کیوں کر ہوئی تھی؟ اس سوال کا جواب بالکل نہیں بھولا ہوں۔ دراصل مینڈک کی آنکھیں سر پر ہوتی ہیں جب رنگو نے پہاڑ کی چوٹی پر کھڑے ہو کر سامنے دیکھا تو اسے جنوب کی بجائے واپس شمال والا علاقہ ہی نظر آیا تھا۔ اس لیے عقل اور اعتماد سے عاری جذباتی رنگو نے واپسی کا فیصلہ کر لیا تھا۔بلاشبہ اعتماد وہ طاقت ہے جو موت کے منہ سے نکال لیتی ہے اور وہم کا کوئی علاج نہیں ہے۔

Leave a Comment