سوال: فرائیڈ کی تحلیل نفسی نے اُردو تنقید کو کیسے متاثر کیا؟ تفصیل سے بیان کریں۔


جواب:نفسیات کی تعریف:
نفسیات جس انگریزی لفظ Psychologyکا ترجمہ ہے، یہ دو یونانی الفاظPsychy اور Logosکا مرکب ہے۔ یونانی دیومالا میں سائیکی روح کی دیوی ہے۔ جب کہLogosکا مطلب لفظ، کلمہ اور بول ہے تو گویا سائیکالوجی کے لغوی معنی ہی میں اس مفہوم بھی شامل ہے۔ یعنی انسان کی روح کے بارے میں علم۔
نفسیات کے نظریات:
انیسویں صدی عیسوی کے آغاز کے ساتھ ہی نفسیات کے بہت سے موضوعات پر وسیع پیمانے پر تحقیقات شروع ہو گئی تھیں۔ شخصیت کے بارے میں زیادہ تر نظریات مختلف ماہرین نفسیات نے نفسیاتی امراض کی تشخیص اور علاج کے دوران حاصل ہونے والی معلومات کی روشنی میں مرتب کیے۔ ان میں سے ایک تحلیل نفسی یا سائیکوانالیسز ہے۔اس نظریے کی بنیاد آسٹریا سے تعلق رکھنے والے مشہور ماہر نفسیات سگمنڈ فرائڈ نے رکھی، وہ بنیادی طور پر ایک ڈاکٹر تھا، لیکن بعد ازاں نفسیات، خصوصاً غیر نارمل نفسیات اس کی دلچسپی کا مرکز بن گئی۔ نفسیاتی امراض کی تشخیص اور علاج کی تربیت کے لیے وہ فرانس گیا اور ہپناٹزم کی تربیت حاصل کی۔ لیکن فرائڈ نے جلد ہی محسوس کیا کہ یہ طریقہ علاج زیادہ کارگر نہیں۔ وہ اپنے کلینک میں نفسیاتی امراض کا مشاہدہ کرتا رہا اور اپنے مشاہدات کو قلم بند کرتا گیا، اس نے اپنے مشاہدات اور تجربات کی بنیاد پر ایک طریقہ علاج مرتب کیا جس کا نام تحلیل نفسی رکھا۔ تحلیل نفسی صرف نفسیاتی علاج ہی کا طریقہ نہیں بلکہ تحقیق کا بھی ایک مو?ثر ذریعہ ثابت ہوا جس کے نتیجے میں تحلیل نفسی کے کئی روپ سامنے آئے۔ ا) یہ ایک طریقہ علاج ہے، ۲) زندگی کے بارے میں ایک فلسفیانہ نکتہ نظر ہے، ۳) شخصیت کا ایک نظریہ ہے۔فرائڈ کا خیال ہے کہ انسانی شخصیت کا تعین اور تشکیل دو اعمال سے ہوتی ہے۔ پہلے عمل کے تحت فرائڈ تمام نفسیاتی وظائف کو تین نظاموں میں تقسیم کرتا ہے۔ انہیں وہ لاذات(Id)، انا (Ego) اور فوق الانا (Super ego)کا نام دیتا ہے اور انہیں شخصیت کے تین اجزا قرار دیتا ہے۔ بعض اوقات یہ تینوں نظام آپس میں تعاون کرتے ہیں، لیکن اکثر ان میں تصادم رہتا ہے۔ اسی تصادم اور تعاون کے نتیجے میں فرد میں شخصی اوصاف پیدا ہوتے ہیں۔ دوسرا عمل نفسی جنسی نشوونما ہے، بچہ پیدا ہونے کے بعد مختلف نفسی جنسی مراحل سے گزرتا ہے جو اس کی آئندہ شخصیت کا تعین کرتے ہیں۔ فرائڈ کے نظریہ شخصیت کے چند بنیادی تصورات یہ ہیں۔نفسی جبریت (Psychic Determination): نفسی جبریت کا مطلب ہے کہ ہر قسم کا کردار اندرونی نفسی اسباب کی وجہ سے تشکیل پاتا ہے، اگرچہ بعض اوقات ان اسباب کی فوری طور پر نشاندہی نہیں کی جاسکتی۔ اس نظریے کے مطابق ہماری معمولی سے معمولی بات بھی بلامقصد نہیں ہوتی۔ مثلاً کسی کے ساتھ مقرر کر کے بھی ملاقات کے لیے نہ جانا محض فراموشی نہیں، یہ اس فرد کی اندرونی خواہش کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی ممکن ہے وہ فرد متعلقہ شخص سے ملنا ہی نہ چاہتا ہو۔نظریہ ذہن: فرائڈ کا خیال ہے کہ انسانی ذہن تین حصوں ۱) شعور (Conscious)، ۲) تحت الشعور (Sub-Conscious)، ۳) لاشعور (Unconsious) پر مشتمل ہے۔ اس وقت آپ جن باتوں سے آگاہ ہیں انہیں شعور کہا جاتا ہے جبکہ تحت الشعور ایسے خیالات پر مشتمل ہے جس سے آپ اس وقت آگاہ نہیں لیکن تھوڑی سی کوشش کرنے سے انہیں شعور میں لایا جاسکتا ہے۔ لاشعور ان باتوں اور واقعات پر مشتمل ہے جو فرد کو بالکل یاد نہیں ہوتے۔ ایک خاص نفسیاتی عمل کے ذریعے اخلاقی طور پر ناقابل قبول خواہشات کو شعور سے خارج کردیا جاتا ہے تب یہ خواہشات لاشعور میں چلی جاتی ہیں اور مختلف طریقوں سے فرد کے کردار پر اثرانداز ہوسکتی ہیں۔جارحانہ و دیگر محرکات: فرائڈ کا خیال ہے کہ فرد میں پیدائشی طور پر جنس اور جارحیت پر مبنی محرکات پائے جاتے ہیں۔ فرد ان کی تسکین معاشرتی اقدار اور اخلاقی اصولوں کے اندر رہ کر ہی کرسکتا ہے بصورت دیگر اسے پسندیدہ شخص قرار نہیں دیا جاتا۔
تحلیل نفسی:
تحلیل نفسی psycho-analysis کا بانی سگمنڈ فرائیڈ اس دور میں آسٹرین سلطنت کے ایک ملک اور موجودہ چیکو سلواکیہ کے ایک قصبے فرائی برگ میں 1856 میں پیدا ہوا۔ جب وہ چار برس کا تھا، اس کا خاندان ویانا منتقل ہو گیا جہاں وہ قریب تمام عمر رہا۔ سکول میں فرائیڈ ایک غیر معمولی ذہین طالب علم تھا۔ اس نے طب میں اپنی ڈگری 1881 میں ویانا یونیورسٹی سے حاصل کی۔ اگلے دس برسوں میں اس نے علمِ عضویات میں تحقیق کی۔ ایک نفسیاتی علاج گاہ کے عملے میں شامل رہا، علم الاعصاب میں پیشہ وارانہ ریاضت کی۔ فرانسیسی ممتاز ماہر علم الاعصاب ژاں چار کوت کے ساتھ پیرس میں کام کیااور ویانا کے معالج جوزف برائر کے ساتھ بھی کام کیا۔
فرائیڈ کے تصورات:
نفسیات پر فرائیڈ کے تصورات بتدریج پروان چڑھے۔ 1895 میں کہیں اس کی پہلی کتاب ”ہسٹریا” پر تحقیقی مقالہ چھپا، جس کا دوسرا مصنف برائر تھا۔ اس کی اگلی کتاب ”خوابوں کی توضیح” 1900 میں شائع ہوئی۔ یہ اس کی شاندار اور انتہائی یادگار تحریروں میں شمار ہوتی ہے۔ اگرچہ پہلے پہل کتاب کی فرخت سست رفتاری سے ہوئی۔ تاہم اس سے اسے خاصی شہرت حاصل ہوئی۔ پھر دوسری کتابیں منظرِ عام پر آئیں۔ 1908 میں جب فرائیڈ امریکہ لیکچر دینے آیا تو وہ پہلے ہی خاص و عام میں سندِ مقبولیت حاصل کر چکا تھا۔ 1902 میں اس نے ویانا میں نفسیاتی موضوعات پر مذاکرے کرنے کے لئے ایک تنظیم بنائی۔ ابتدائی اراکین میں الفرڈ ایڈلر بھی شامل تھا۔ چند سال بعد اس میں کارل یونگ آ گیا۔ دونوں احباب نے نفسیات کی دنیا میں بے پناہ شہرت حاصل کی۔
فرائیڈ کے علمی کارنامے:
علمِ نفسیات میں فرائیڈ کے کارنامے اس قدر بے پایاِں ہیں کہ انہیں مختصرََا بھی یہاں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اس نے انسانی رویے میں لا شعوری ذہنی عوامل کی اہمیت پر سب سے زیادہ زور دیا۔ اس نے ثابت کیا کہ کس طرح یہ عوامل خوابوں کو متاثر کرتے ہیں اور کس طرح طور عمومی نوعیت کی کمزوریاں پیدا کرتے ہیں جیسے زبان کی ہکلاہٹ اور ناموں کی فراموشی یا پھر خود ساختہ سانحات یا حتٰی کہ بیماریاں بھی
ذہنی عارضے کا علاج:
فرائیڈ نے ذہنی عارضے کے لیے تحلیل نفسی کا طریقہ کار اختراع کیا۔ اس نے انسانی شخصیت کا ایک ڈھانچہ وضع کیا۔ اس اضطران، دفاعی میکانیت، آختہ الجھن (castration complex) دباؤ، ارتفاع (sublimation) جیسی متعدد مختلف صورت احوال کے متعلق نفسیاتی نظریے وضع کیے اور انہیں عام کیا۔ اس کی تحریروں نے عوام کی نفسیات میں دلچسپی کو کئی چند کیا۔ اس کے متعدد نظریات متنازعہ فیہ ہیں اور جب سے وہ منظرِ عام پر آئے ہیں ان پر گرما گرم مباحث ہو رہے ہیں۔ فرائیڈ کی ایک شہرت یہ نظریہ پیش کرنے کے باعث ہے کہ دبی ہوئی جنسی خواہشات عمومََا ذہنی بیماری یا neurosis کے ظہور میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ در حقیقت فرائیڈ اس خیال کا مخترع نہیں تھا، ہاں اس کی تحریروں نے اس خیال کو سائنسی درجہ عطا کیا۔ اس نے یہ موقف ظاہر کیا کہ جنسی ہیجانات اور خواہشات کا آغاز بچپن میں ہی ہوتا ہے نہ کہ بلوغت میں۔ چونکہ فرائیڈ کے متعدد نظریات ہنوز متنازعہ فیہ ہیں۔ تاریخ میں اس کی اصل حیثیت کا تعین کرنا دشوار ہے۔ فرائیڈ میں جدت پسندی کا مادہ غیر معمولی تھا۔ ڈارون یا پاسچر کے برعکس فرائیڈ کے نظریات سائنسی علماء کے طبقہ سے عمومی طور پر پذیرائی حاصل نہیں کر سکے۔
انسانی فکر کی تاریخ میں فرائیڈ ایک ممتاز ترین شخصیت کے طور پر موجود ہے۔ نفسیات پر اس کے تصورات نے انسانی ذہن کے تصور میں انقلابی تبدیلی پیدا کی ہے۔ وہ متعدد نظریات اور اصطلاحات جو اس نے متعارف کروائیں زبان کے عام استعمال کا حصہ بن گئیں۔ جیسے id, ego, oedipus complex اور جبلتِ مرگ وغیرہ۔
گراں قیمت طریقہ:
یہ درست ہے کہ تحلیل نفسی علاج کا ایک گراں قیمت طریقہ کار ہے۔ بلکہ یہ اکثر ناکام ثابت ہوتا ہے۔ لیکن یہ بھی غلط نہیں کہ اس طریقہ نے متعدد بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ مستقبل کے نفسیات دان زیادہ بہتر انداز میں فیصلہ کر پائیں گے کہ دبی ہوئی خواہشات کا انسانی رویے کی ساخت و پرداخت میں بنیادی کردار نہیں ہے، جیسا کہ فرائیڈ یا اس کے پیر و کار تصور کرتے ہیں۔ تا ہم آج نفسیات دانوں کی اکثریت اس امر پر متفق ہے کہ لاشعوری ذہنی سرگرمیاں انسانی کردار میں بنیادی عمل دخل رکھتی ہیں۔ جس پر فرائیڈ سے پہلے زیادہ خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔
لاشعور:
تحلیلِ نفسی دراصل“بے شعور/لاشعور دماغ”(Unconscious-Mind) کے مطالعہ و تجزیہ سے متعلق نظریات اور علاج کے طریقوں کا ایک مجموعہ ہے جس کا مقصد ذہنی صحت کی خرابیوں کے علاج کے طریقہ کار کو وضع کرنا ہے۔ تحلیلِ نفسی مختلف گروہوں کی نظر میں متنازعہ علمی شعبہ ہے اور اِس کی سائنسی حیثیت پہ بھی ابھی بحث جاری ہے۔ اِس کے باوجود نفسیات میں دیگر علمی ضابطوں کی نسبت یہ ایک محکم اثرات کا حامل ہے۔ حتیٰ کہ یہ دماغی علاج کے دائرے سے باہر دیگر کئی علمی و سائنسی شعبوں میں بھی استعمال ہو رہا ہے۔
طب میں استعمال:
تحلیلِ نفسی کے اہم نظریات کو کئی مکاتبِ فکر کے تحت منظم کیا جا سکتا ہے۔ شعبہِ طب میں بیماری کے مخصوص اسباب اور اُن علاج کے مخصوص طریقوں پہ تنازعہ کی مانند اگرچہ یہ تمام نظریاتی مکاتبِ افکار مختلف ہیں لیکن ان میں سے اکثر شعور پر لاشعور کے اثرات کو اہمیت دیتے ہیں۔ اکیسویں صدی میں یورپ نے تحلیلِ نفسی کو بچوں کی دیکھ بھال، تعلیم، ادبی تنقید، ثقافتی مطالعہ، دماغی صحت، اور خاص طور پر نفسیاتی علاج سمیت بہت سے شعبوں میں رائج کیا ہے۔ راقم کی نظر میں تحلیلِ نفسی کا بہترین استعمال مابعدجدیدیت کی مخالفت میں ہوا ہے۔
جغرافیائی نظریہ:
انسانی دماغ کے بارے میں سگمنڈ فرائیڈ نے ایک جغرافیائی مفروضہ تیار کیا کہ دماغ کو تین حصوں یعنی شعور، قبل از شعور اور لاشعور میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ شعور کو دماغ کا فعال ترین حصہ سمجھا جاتا ہے جس میں ہمہ قسمی خیالات اور آراء ہوتی ہیں جو دماغ سے فوراً موصول ہوتی ہیں۔ قبل از شعور عمومی یادداشت کا حصہ ہے جو ایسی یادوں کا حامل ہوتا ہے جو شعور میں نہیں ہوتی لیکن اُن کو آسانی سے شعور میں لایا جا سکتا ہے، جبکہ لاشعور جذبات، میلانات اور نظریات کا حامل دماغی حصہ ہے جو بے چینی، تنازعات اور درد سے منسلک ہوتے ہیں۔ فرائیڈ کے مطابق ایسے جذبات اور خیالات کو غائب نہیں ہو جاتے بلکہ وہ وہاں موجود رہتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ہمارے اعمال و شعور پر اثر انداز بھی ہوتے ہیں۔ یہ وہ حصہ ہے جہاں انفرادی شناخت اور انا کا زیادہ سے زیادہ دخل ہوتا ہے۔ یہاں یہ بتانا اہم ہے کہ فرائیڈ کے مطابق یہ تینوں دماغ کے جسمانی حصے نہیں بلکہ دماغی عمل کے حصے ہیں۔ اگرچہ فرائیڈ نے اس نظریہ کو زندگی بھر میں برقرار رکھا تاہم اس نے بڑے پیمانے پر اس کو“ترکیبی نظریہ”سے بدل دیا۔ سگمنڈ فرائیڈ کا یہ جغرافیائی نظریہ (Topographic theory) کلاسیکل نفسیات میں دماغ کے افعال کی وضاحت کرنے کے لئے مافوقی نقطہ نظر کے طور پہ دیکھا جاتا ہے۔
ترکیبی نظریہ:
سگمنڈ فرائیڈ کے ترکیبی نظریہ (Structural Theory) کے مطابق انسانی رویہ دماغ کے تین اجزاء یعنی:
1۔ ذات id
2۔۔ خودی ego
3.۔ماوراء خودی super-ego
کے درمیان باہمی عوامل کا نتیجہ ہے۔ ان تینوں دماغی ساختوں میں اختلافات اور ان میں سے ہر ایک کے درمیان توازن برقرار رکھنے کے لیے ہماری کوششیں ہی ہمارے رویوں اور باقی دنیا کے ساتھ ہمارے تعلق کی نوعیت کو متعین کرتی ہیں۔
تینوں اجزا میں اولیت کی حامل“ذات”ہے جو ہماری مادی ضروریات اور محرکات کی فوری تسکین و تعبیر سے متعلق ہے۔ یہ مکمل طور پر ایک غیرشعوری عمل ہے۔ مثلاً ایک انسان کہیں سے گزر رہا ہے اور کسی اجنبی کو آئس کریم کھاتے ہوئے دیکھتا ہے تو یہ اچھائی برائی اور بدتمیزی بارے سوچے بغیر اولین خیال ذہن میں پیدا ہوتا ہے۔ یہ آئس کریم اُس سے لے کر خود کھا لی جائے،یہ شعور، حقیقت پسندی اور دوراندیشی سے مبرا فقط“خوشی”کے حصول کا ایک دماغ عمل ہے جو انسانی دماغ میں پیدائش سے موجود ہوتا ہے۔
مسلسل تنازعہ:
فرائیڈ کے مطابق ذات، خودی اور ماورا خودی کے بیچ مسلسل تنازعہ چلتا رہتا ہے۔ ایک بالغ انسان کے رویوں کا تعین بچپن سے جاری انہی دماغی اجزاء کے بیچ تنازعات ہی کرتے ہیں۔ اُس کے مطابق طاقتور خودی ہی ایک صحت مند شخصیت کو تشکیل دیتی ہے جبکہ اِن دماغی اجزاء کا عدم توازن تشویش، ڈپریشن اور پریشانی جیسی ذہنی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔
جنس کی اہمیت:
فرائیڈ زندگی میں جنس کو اہمیت دیتا ہے۔ اُس کے خیال میں انسان کا ذہن شعور، تحت الشعور اور لاشعور میں تقسیم ہے۔ وہ دراصل اہمیت لاشعور کو دیتا ہے جو اشاراتی انداز میں خوابوں میں اور علامات کے روپ میں تخلیقات میں اظہار پاتا ہے۔ ژونگ، فرائیڈ کے تصور لاشعور کو نجی قرار دیتا ہے۔ ایک اچھا نفسیاتی نقاد مطالعہ ادب میں حسب ضرورت ان دونوں نفسیات دانوں (فرائیڈ اور ژونگ) سے استفادہ کرتا ہے۔

Leave a Comment