”یہ میری زندگی کا تجربہ ہے بیٹا…کبھی کبھی کچرا سونا اگلتا ہے…!“
اس کا باپ ٹی بی کا مریض تھا۔ مرنے سے پہلے اس نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی تھی۔ وہ خود تو کچرا اٹھاتا ہی تھا، اب اس کا بیٹا بھی کچرا اٹھانے لگا۔ اپنے باپ کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے وہ کچرے میں ہاتھ ضرور مارتا تھاکہ شاید کوئی کام کی چیز ہاتھ لگ جائے۔ مگر ابھی تک کچرے نے سونا نہیں اگلا تھا…
ایک دن کچرے کی تلاش میں وہ ایک پاپوش علاقے میں داخل ہوا۔یہاں ایک دروازے کے پاس اسے کچرے سے بھرا شاپر ملا۔ اس شاپر میں پلاسٹک کی خالی بوتلیں اور دوسرا کچرا موجود تھا۔ اب جو اس نے دیکھا تو کچرے میں بہت سے کرنسی نوٹ موجود تھے۔ وہ اسی جگہ پر بیٹھ گیا۔ اس نے کرنسی نوٹ گننے کی کوشش کی مگر اسے تو گنتی ہی نہیں آتی تھی۔ وہ سوچنے لگا کہ یہ کتنے ہوں گے…!
اتنے میں اس نے کسی لڑکی کے چیخنے کی آواز سنی۔ کوئی اس پر چلا رہا تھا،
”چور… چور ہو تم…تم نے میری جیب میں سے پچاس ہزار روپے نکال لیے ہیں۔۔ کہاں ہیں روپے…؟“
”میں نے چوری نہیں کی صاحب… میں تو بس گھر کی صفائی کرتی ہوں…!“
”صفائی…. تم نے تو صفایا کیا ہے… میں تمہیں پولیس کے حوالے کروں گا…!“
پھر دھڑاکے سے دروازہ کھلا۔ کچرا اٹھانے والے لڑکے نے دیکھا، ایک خوش لباس آدمی نے گھر میں کام کرنے والی ایک غریب لڑکی کو دبوچ رکھا تھا۔
”چلو پولیس اسٹیشن…“ وہ لڑکی رو ہی تھی، تڑپ رہی تھی اورفریاد کر رہی تھی… جانے اس کچرا اٹھانے والے لڑکے کے دل میں کیا آئی۔
”یہ لو صاحب… آپ کا کچرا…“اس نے کرنسی نوٹ اس آدمی کی طرف بڑھا دیے۔وہ لڑکی شکر گزار نظروں سے کچرا اٹھانے والے لڑکے کی طرف دیکھنے لگی۔اب وہ اس گھر میں کام کرنا نہیں چاہتی تھی۔کچرا اٹھانے والا لڑکا اور کام کرنے والی لڑکی وہاں سے چلے گئے۔ وہ آدمی گھر میں داخل ہوا۔ وہ بہت مسرور تھا۔ ہاتھ سے گئی رقم واپس لوٹ آئی تھی۔ اس نے یہ رقم ایک طرف رکھے اپنے کوٹ کی جیب میں ڈال دی۔اب وہ اپنی بیوی سے بات کر رہا تھا،
”کمینے لوگ….آپس میں ملے ہوے ہیں…“ اتنے میں اس نے ایک منظر دیکھا۔اس کا نوعمر بچہ کوٹ کے پاس آیا،اس نے کوٹ کی جیب میں سے رقم نکالی اور کوڑے دان میں ڈال دی۔کچرا پھر سے کچرے کا حصہ بن چکا تھا…!