جواب:جوش ملیح آبادی:
آپ کثیر التصانیف شاعر و مصنف تھے۔ جوش نہ صرف اپنی مادری زبان اردو میں ید طولیٰ رکھتے تھے بلکہ آپ عربی، فارسی، ہندی اور انگریزی پر بھی عبور رکھتے تھے۔
خصوصیاتِ شاعری:
شاعرانہ صلاحیت:
پہلی خصوصیت ان کی فطری اور موروثی شاعرانہ صلاحیت ہے۔ وہ ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جس میں کئی پشتوں سے شعر گوئی کاس چرچا تھا۔ اور یہ شاعرانہ صلاحیت جوش کو گویا وراثت میں ملی تھی۔
اسلوبِ بیان کی روانی:
ان کی شاعری میں بے پناہ روانی اور سلاست ہے۔ الفاظ کا ایک دریا سا امنڈتا اور شور مچاتا ان کی ہر نظم میں آتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ ان کا ذخیرہ الفاظ اتنا وسیع ہے کہ پوری اردو شاعری مین غالباً نظر اکبر آبادی اور انیس لکھنوی کے سوا کوئی شاعر اس معاملے میں جوش کی ٹکر کا نہیں ہے۔
علمِ بیان کا استعمال:
جوش کی نظموں میں نئی نئی اور پے درپے تشبیہوں اور استعاروں کا ایسا برجستہ اور بے ساختہ استعمال ہے کہ پڑھنے والا ان کے الفاظ کی گھن گرج کے علاوہ ان تشبیہوں اور استعاروں کے طلسم میں گرفتار ہوکر رہ جاتا ہے۔
وزن و قافیہ کی پابندی:
جوش اور چاہے کتنی ہی بغاوتیں کریں ان کا ہر شعر شاعری کے تمام اصولوں کے مطابق ہوتا ہے اور اردو شاعری میں رائج ہیں۔ اسی لیے وہ الفاظ کی کثرت و قدرت اور وزن و قافیہ کی پابندی کے ذریعے قاری یا سامع کے ذہن پر چھا جاتے ہیں اور پورے زور اور وضاحت سے اپنے دل کی بات کہہ دیتے ہیں۔
نرم عاشقانہ شاعری:
بغاوت کی دھوم دھام اور آگ، بجلی، موت آندھی، جیسے الفاظ کے علاوہ جوش نے عشقیہ واردات بھی بڑی خوبی اور لطافت سے بیان کی ہیں۔ اس قسم کے کلام میں بھی بے پناہ روانی پائی جاتی ہے۔
منظر نگاری:
مختلف مناظر فطرت کو بھی جوش نے بڑی مہارت، خوبصورتی اور روانی سے بیان کیا ہے۔
مضطرب اور پریشان روح:
جوش نے اپنے دور کے نوجوانوں کی اضطرابی اور پریشانی بھی بڑی وضاحت سے جابجا بیان کی ہے۔
ہنگامہ خیزی:
ایک باغی شاعر کے ہاں گھن گرج، دھماکے، جھنکاریں جیسی چیزیں قدرتاً ہوتی ہیں۔ جوش کے ہاں بھی یہی تمام خصوصیات نمایاں ہیں، جن میں الفاظ کی دھوم دھام سے خوب کام لیاگیا ہے۔
جوش کی نظموں کو موضوعاتی اعتبار سے تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
فطرت رومان ا نقلاب
٭ فطرت:
حالی اور آزاد نے جدید اردو شاعری کا سلسلہ شروع کیا ہے تقریباً تمام شعرا نے اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔کلیم الدین احمد کا خیال ہے کہ ”جو ش اس راہ میں سب سے آگے نکل جاتے ہیں۔ ان کی آنکھیں دیکھتی ہیں،جزئیات پر بھی نگاہ پڑتی ہے۔“
ڈاکٹر محمد حسین کا کہنا ہے:
”جوش ورڈز ورتھ کی طرح نگاہیں گاڑ کر دیکھتے ہیں۔“
جوش کو آغاز شاعری ہی سے فطرت سے والہانہ لگاؤ رہا ہے۔ انھوں نے فطرت کا مشاہدہ کیا۔ اس کی جزئیات پر غائر نظر ڈال کر اسے اپنی شاعری میں بیان کر دیا۔ جوش کے پہلے مجموعہ کلام”روح ادب“ سب سے بہترین نظمیں براہ راست یا بالواسطہ طور پر فطرت سے متعلق ہیں اور ان کی فطرت پرستی پورے مجموعہ کلام پر غالب ہے۔ ان کے کلام”شاعر کی راتیں“میں شامل تمام نظمیں رات کے بارے میں ہیں جس میں رات کی مختلف کیفیات کو بیان کیا گیا ہے۔ تیسرے مجموعہ کلام ”نقش زرنگار“میں اپنی سرزمین اور گردوپیش سے متعلق نظمیں ملتی ہیں۔ چوتھے مجموعہ کلام”شعلہ شبنم“ میں رنگ و بو کے عنوان سے فطرت کے متنوع موضوعات پر نظمیں درج ہیں۔اسی طرح ان کے دیگر مجموعہ ہائے کلام رامش و رنگ، فکرونشاط، حرف وحکایت،آیات و نغمات،عرش و فرش،سردوفروش،اور الہام و افکار،میں فطرت کے بارے میں اہم نظموں کی نشاندہی کی جا سکتی ہے۔
جوش نے فطرت کو بڑی گہری نظر سے دیکھا ہے وہ محض منظر نہیں دکھاتے بلکہ ان مناظر کے ہمہ جہت اور رنگا رنگ پہلوں کو بڑی ہنر مندی کے ساتھ آشکار کرتے ہیں۔وہ جس منظر سے سب سے زیادہ متاثر ہیں وہ صبح کا منظر ہے وہ صبح کو رسول کا درجہ دیتے ہیں۔
ہم ایسے اہل نظر کو ثبوت حق کے لیے اگر رسول نہ ہوتے تو صبح کافی تھی
صبح کا منظر دیکھنے کے لیے انہوں نے،قصر سحر، کی تعمیر کروائی۔ وہ مناظر سحر کے نغمے اپنی شاعری میں پہلی بار سناتے ہیں۔ اس قبیل کی خاص نظمیں ”مناظر سحر“ نغمہ سحر،صبوحی،سویرا،پیغمبر فطرت، البیلی صبح،اور ”دعا سحری“خاص طور پر پیش کی جا سکتی ہیں۔صبح کے علاوہ جوش کو دیگر مناظر فطرت بھی اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔ مثلاً برسات کا موسم انہیں بہت عزیز ہے۔برسات کے موسم میں جب گھٹائیں امڈ کر آتی ہیں تو ان کے محسوسات دیکھنے کے لائق ہیں۔
اٹھی گھٹا وہ رنگ و بو کا کارواں لیے ہوئے جلو میں کائنات کی جوانیاں لیے ہوئے
٭ رومانیت:
جوش کی نظموں کا ایک اہم موضوع رومانیت ہے۔ اس کی رومانیت پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹرمحمد حسن لکھتے ہیں:
”جوش جمالیات حسن سے زیادہ شدت جذبات کے پرستار ہیں۔ ان کی رومانیت کی خام مشکل مبہم، افسردگی، انسانیت پرستی، اور ماورائیت نہیں بلکہ گھن گرج اور انقلابی آن بان اور پہاڑوں سے ٹکرا جانے والے ولولے کی صورت میں نمایاں ہوتی ہے۔“
رومانیت کی یہ صورت جس کا ذکر ڈاکٹر محمد حسن نے کیا ہے جو اس کے یہاں بہت بعد میں پیدا ہوئی جب کہ ان کی ابتدائی رومانی نظموں میں شیریں اور سبک جذبوں کی لے محسوس ہوتی ہے۔بیسویں صدی کی دوسری دہائی میں اپنی عشقیہ اور رومانی مہمات کو نظم کرنے کا چلن عام ہو گیا تھا۔فطرت پرستی، ماضی سے عشق،وطن سے جذباتی وابستگی، اور عشقیہ خیالات نے نظم میں سوزوگداز کے عناصر کو فروغ دیا۔جوش کے یہاں یہ رومانی انداز ذرا وسیع شکل میں ظاہر ہوا۔ان کی شاعری میں جوانی کا ہر پیکر اور حسن کا ہر زاویہ اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ ورود کرتا ہے۔اس کی مثال پیش کی جا سکتی ہے جس میں حسن کی قصیدہ خوانی خوبصورت نظم و تشبیہوں اور استعاروں کا ایک ہجوم اکٹھا کر دیتے ہیں۔زاہد فریب، گل رخ، کافر، دراز مژگاں سیمیں بدن، پری رخ، نوخیز حشر ساماں خوش چشم،خوبصورت، خوش وضع، ماہ پیکرنازک بدن،شکر لب،شیریں ادا فسوں گرآبرو حلال، میگوں، جاں بخش روح پرورنسرین بدن، پری رخ،سیمیں عذار دلبر۔
رومانیت کے سلسلہ میں جوش بنیادی طور پر نشاط زیست کے شاعر ہیں۔ جس کے لیے وہ روح اور جسم دونوں کی بیداری کے قائل ہیں وہ حسن کو محض دور سے دیکھنے کے بجائے اسے قریب لاتے ہیں۔اور اس کے سرورآگیں جام سے تشنہ لبوں کو سیراب کرتے ہیں۔ اختر شیرانی کی طرح وہ محض تصویر پرستی سے لزت کشید نہیں کرتے اور نہ ہی خیال آرائی کے سہارے پیکر تراشتے ہیں بلکہ حسن و عشق کے سارے عمل کو اپنے تجربات کا حصہ بناتے ہیں۔ ان کے یہاں ہجر اور بے وفائی کے آزار بھی ہیں۔ آرزوئے محروم اور حسرت ناتمام کے دکھ میں بھی ہیں۔ آرزوئے محروم اور حسرت ناتمام کے دکھ بھی ہیں جو آہ وسوزاں اور فریاد میں ڈھل جاتے ہیں۔
٭انقلاب:
جوش کی انقلابی نظموں کے ابتدائی دور میں زیادہ تر رومانی عناصر ہی ملتے ہیں کہ وہ رومانیت کے راستے انقلاب تک پہنچے۔ جوش کی اپنی نظموں کے بارے میں ڈاکٹر محمد حسن نے”گھن گرج“،”انقلابی آن بان“ اور”پہاڑوں سے ٹکرا جانے والی صورت“ کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ جوش کی انقلابی شاعری انگریز دشمنی کی صورت میں ظاہر ہوئی۔ چنانچہ ان کی بیشتر نظموں میں اسی نفرت اور بغاوت کے جذبے اور آزادی کی تڑپ کو اپنے دامن میں لیے ہوئے ہیں۔ہاں بغاوت! آگ، بجلی، موت آندھی میرا نام میرے گرد و پیش اجل میرے جلو میں قتل عا م زرد ہو جاتا ہے میرے سامنے روئے حیاتک کانپ اٹھتی ہے میرے چین جبیں سے کائنات تالخدر، میری کڑک کا زور ہنگام مساف پڑجاتا ہے ایوان حکومت میں شگاف جوش کی بغاوت ایک للکار کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کی نظمیں آثار، انقلاب، اور شکست زندان کا خواب، اس انداز اور کیفیت کی مظہر ہیں۔ یہ نظمیں پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جو شخص انقلاب کے سلسلے میں اجتماعی رویے سے زیادہ انفرادی اور ذاتی رویہ کے قائل ہیں۔ ان کے نزدیک انقلاب کا ہیرو ایک فرد اور وہ شخص خود جوش کی ذات ہے اس رویہ پر فیض نے شکوہ بھی کیا ہے کہ:
”انہوں نے مزدور اور کسان کے تجربات کے ترجمانی نہیں بلکہ خود اپنے طبقے کی الجھنوں اور مسائل کو بھی بیشتر موضوع شعر نہیں بنایا۔ وہ انفرادیت پسند ہیں اس لیے وہ جماعتی طور پر سوچتے نہیں انفرادی طور سے سوچتے ہیں۔“
تاہم انقلاب کا تصور اجتماعی کے بجائے ذاتی رکھنے کے باوجود جوش کی اہمیت یہ ہے کہ انہوں نے اس دور میں آزادی کا نعرہ لگایا جب انگریز سامراج آزادی کا نام لینے والوں پر عرصہ حیات تنگ کر رہے تھے۔ جوش نے اس دور میں اپنی شاعری کے ذریعے عوام میں آزادی حاصل کرنے کا شعور بیدار کیا۔غلامی سے نفرت دلائی، اور اپنی بلند آہنگ نظموں کے ذریعے عوام کو انگریزوں کے خلاف اکسایا۔
سنو اے بسنگان زلف گیتی ندا کیا آرہی ہے آسماں سے کہ آزادی کا اک لمحہ ہے بہترغلامی کی حیات جاوداں سے
جوش کی کی شامل نصاب نظمیں:
شاعروں کا منشور،زندگی مال مسرت، برکھا آئی، خشک آنسو……یہ تمام نظمیں جوش کے مجموعہ کلام محراب ومضراب سے ہیں۔جوش نے جس منطقہ شاعری میں اپنی تخلیق کی بنیاد رکھی اس کی اپنی ایک انفرادیت اور جداگانہ حیثیت ہے۔ ان کی نظم میں اپنے عہد میں ایک ایسا ماحول پیدا کر دیا تھا کہ ہر ترقی پسند شاعر نہ صرف ان کی شاعری سے اثرات قبول کیے بغیر نہیں رہ سکا بلکہ ان کی تقلید میں بلند بانگ انقلابی ان کے ساتھ کیا یا یہ ہے کہ بیسویں صدی کی اردو شاعری جوش کی افکار و نظریات سے جگمگا رہی ہے۔